بلاگزعوام کی آواز

 کیا آپ جانتے ہے کہ بیوہ کون ہوتی ہے؟

مہرین خالد

کیا آپ نے کبھی ایسی بیوہ دیکھی ہے جس کا خاوند حیات ہو، یا ایسے یتیم بچے جن کے والدین حیات ہوں، نہیں نا؟ کیونکہ ہماری نظر میں صرف وہی خاتون بیوہ ہے جس کا خاوند فوت ہوا ہوں اور وہی بچے یتیم ہیں جن کے والدین میں سے کوئی وفات پا چکا ہو۔

کافی عرصے سے طبیعت ناساز سی رہتی تھی تو ڈاکٹر سے معائنہ کروانے پشاور چلی گئی۔ ہسپتال پہنچی تو دیکھا کہ پہلے ہی کثیر تعداد میں مریضوں کا رش موجود تھا تو میں بھی ساتھ میں پڑے بینچ پر بیٹھ گئی اور اپنے نمبر کا انتظار کرنے لگی۔ میری طرح اور بھی خواتین اپنے اپنے نمبر کا انتظار کر رہی تھیں اور باتوں باتوں میں ایک دوسرے سے مرض کا بھی پوچھتی۔

زیادہ تر شادی شدہ خواتین کے ساتھ بیٹا،دیور اور بہت کم خواتین کے ساتھ خاوند موجود تھے۔ خیر دو گھنٹے انتظار کرنے کے بعد میرا نمبر آیا اور اندر صرف مریض کو جانے کی اجازت تھی البتہ جس مریض کو ڈاکٹر کی بات یا جسے ڈاکٹر کو سمجھانے میں مسئلہ درپیش ہوتا تو ان کے ساتھ اضافی بندے کی جانے کی اجازت ہوتی۔

میں اندر گئی تو دیکھا کہ تین کرسیوں پر مشتمل ایک بینچ اور مریض کا معائنہ کرنے کے لیے ایک سٹریچر موجود ہے ان دو کرسیوں پر پہلے ہی دو خواتین بیٹھی تھی تیسری پر میں بیٹھ گئی اور ایک خاتون سٹریچر پر لیٹی ڈاکٹر کو اپنی بیماری کے بارے میں بتا رہی تھی ڈاکٹر نہایت مہذب اور نرم لہجے کے مالک تھے اور بہت تفصیل سے مریض کی بات سنتے اور معائنہ کرنے کے بعد مریض کو تسلی بھی دیتے یہ سب دیکھ کر میں بھی خوش ہوئی اور دل کو ایسی تسلی ملی جیسے ڈوبتے کو تنکے کا سہارا۔ ان سب خواتین کے بعد میری باری آئی سٹریچر پر لیٹتے ہی مجھے دیکھ کر ڈاکٹر کہنے لگے جی مہرین بیٹا مسئلہ بتاؤ "ا”سے لے کر”ے” تک میں بتانے لگی ابھی میں” ے” پر پہنچی نہیں تھی کہ ڈاکٹر سمجھ گئے تھے کہ دراصل میرے ساتھ کیا مسئلہ ہے ڈاکٹر نے کہا تم بلکل تھیک ہو بس لوگوں نے یہ کہہ کہہ کر بیمار بنا دیا "کہ تم بیمار ہو” اور مجھے خوب دلاسہ دیتے ہوئے کہا کہ میں مہرین کو ایک کامیاب لڑکی دیکھنا چاہتا ہوں نہ کہ خود سے انجان ایک مریض خیر یہ باتیں پھر کبھی۔۔۔۔۔

میرے بعد ڈاکٹر جس خاتون کا معائنہ کرنے لگے وہ بھی بنوں سے ہی تھی۔ خاتون یکا یک اپنی بیماریوں کا ڈاکٹر کو بتانے لگی ڈاکٹر خاتون سے کہنے لگے کہ بی بی (ولے پریشانہ یے) یعنی بی بی کیوں پریشان ہو آپ بیمار کم اور ذہنی دباؤ کا شکار زیادہ ہیں۔ خیر میں سٹریچر سے اتر کر اپنے جوتوں کے تسمے باندھنے لگی تھی کہ ڈاکٹر نے کہا

مہرین بیٹا! کیا آپ کو معلوم ہے "کہ یتیم کیسے کہتے ہیں” میں نے چٹ پٹ سے جواب دیا جی سر کیوں نہیں جس بچے کے والد یا والدہ نہ ہو، پھر کہنے لگے اچھا کیا یہ بھی معلوم ہے کہ "بیوہ” کون ہوتی ہے میں نے کہا جی سر جس خاتون کے خاوند وفات پا چکے ہوں تو ڈاکٹر کہنے لگے تو کیا یہ خاتون بیوہ نہیں یا ان کے بچے یتیم نہیں میں کچھ سمجھ نہیں پا رہی تھی لیکن شاید ڈاکٹر سمجھ چکے تھے کہ میری اور اس خاتون کی اندر کے خوف و ڈر کی کیفیت ایک ہی ہے لیکن ہماری منزلیں اور سمتیں الگ الگ ہیں۔

میں اس خاتون کی طرف دیکھنے لگی جو بے بسی کی مسکراہٹ چہرے پہ سجائی ہوئی تھی لیکن سر! خاتون تو پہلے ہی بتا چکی ہے کہ ان کے خاوند سعودی عرب میں ہے۔ کہنے لگے جی بیٹا یہ خاتون بتا چکی ہیں کہ پانچ، چھے سال سے اس نے اپنے خاوند کی موجودگی کو نہیں پایا اور نہ ہی ان کے بچوں نے والد کو۔

تب دھیرے دھیرے بات میرے ذہن کو بھانے لگی اور بینچ پر ٹیک لگاتے ہوئے ایک لمبی سانس لی۔ اس وقت مجھے اپنے گاؤں کی ہر خاتون بیوہ نظر آنے لگی جن کے خاوند کئی کئی سال سے کمانے کی خاطر پردیس میں رہائش پذیر ہیں اور وہ اکیلی ہر مسئلے، پریشانی اور بیماری کے لیے ڈٹ کے کھڑی ہیں۔ میرے گاؤں کی ہر وہ خاتون جو مجھے پیار سے گلے لگا کر یتیم کہتی ہیں ان سب کے بچے یتیم نظر آنے لگے جو سالہا سال اپنے والد کی شفقت ومحبت سے محروم رہتے ہیں۔اس وقت مجھے اپنے ابو کی کہی ہوئی ایک بات یاد آنے لگی کہ ان کے والد یعنی میرے دادا نے اپنے بچوں کو نصیحت کر رکھی تھی کہ ” کبھی بھی اپنے بچیوں کی شادی کسی دبئی یا سعودی کمانے والے سے نہ کروانا یہ ہماری بچیوں کی جوانی کو ضرب لگا دیتے ہیں۔”

اور ضرب کیوں نہ لگے ان جوانیوں کو جب ہمارے گاؤں کا ہر دوسرا فرد سعودیہ میں ہے۔ تین سال کوئی پانچ سال تک اپنے ہونے کا احساس نہیں دلاتا ۔کبھی کسی نے سوچا ہے کہ ان سالوں میں یہ خواتین کن مشکلات اور بیماریوں سے گزرتی ہیں؟ میں نے ایسی خواتین بھی دیکھی ہیں کہ ان کی صحت گل گئی لیکن ڈاکٹر ان کی بیماری کی نشاندہی نہیں کر پائے اور ایسی خواتین بھی دیکھی کہ جن کی جوانی بوڑھاپے میں بدل گئی لیکن خاوند کو نہ دیکھ پائیں اور ایسی خواتین بھی دیکھی کہ جن کی جوانی بیوگی میں بدل گئی لیکن آج تک ان کے خاوند کا اتا پتا نہیں۔

آج بھی میرے گاؤں میں ایسی بیوہ خواتین ہیں کہ جن کا وجود مختلف بیماریوں کا شکار ہے جن میں بچے پیدا کرنے کے مسائل، ہائی بلڈ پریشر، ذہنی پریشانی، شوگر اور جوڑوں کی بیماری عام ہے۔ کہنے کو تو یہ عام بیماریاں ہیں لیکن یہ انسان کے وجود کو اندر ہی اندر نگل لیتی ہیں۔

کہنے کو تو یہ ڈاکٹر کے ساتھ تیس منٹ کی گفتگو تھی لیکن اس میں ایک بڑا فلسفہ تھا جس کو سمجھنے کے لیے مجھے کئی دن لگے کہ کیوں ہمارے گاؤں کا ہر بندہ سعودیہ میں ہے کسی کو اپنا ہنر وہاں نظر آیا، کسی کو اپنا مستقبل، کسی کو زیادہ پیسے کمانے نے وہاں پہنچا دیا تو کسی کو روزی روٹی نے۔

اس تحریر کے اختتام پر یہ ضرور لکھنا چاہوں گی کہ اپنی بچیوں کے لیے جہیز اور سونا چاندی جمع کرنے کی بجائے انہیں تعلیم کے زیور سے آراستہ کریں تاکہ وہ خود مختار بنے اور ازواج زندگی کے بعد وہ خاوند کے ساتھ زندگی گزارے نہ کہ خاوند کے سہارے۔

دوسری بات یہ کہ اپنے بیٹوں کو لاڈ پیار ضرور دیں لیکن وقت کے ساتھ انہیں اپنی ذمے داریوں کا احساس بھی دلائیں تاکہ بعد میں در بدر کی ٹھوکریں کھانے کی بجائے وقت پر اپنا مستقبل سنوار سکیں۔

Show More
Back to top button