چارسدہ کی سٹرابیری جو دوسرے فصلوں کے مقابلے میں چھ گنا زیادہ منافع دے رہی ہے
شاہین افریدی
شدید موسم، ہمسائے ملک افغانستان کے ساتھ غیر یقینی تجارتی پالیسی اور مہنگائی نے چارسدہ کے کاشتکاروں کو سٹرابیری کی فصل کے لئے نت نئے طریقے ڈھونڈنے پر مجبور کر دیا ہے۔ سٹرابیری کاشتکار کہتے ہیں کہ یہ تین عوامل ان کے لئے بڑے چیلنجز ہیں لیکن وہ ان سے نبرد ازما ہونے کے نئے طریقے ازما رہے ہیں۔
چارسدہ کے کاشتکار اسٹرابیری کی کاشت سے بہتر معاشی فوائد حاصل کرتے ہیں۔ ان کی کھیتوں کا پھل اندرون ممالک اور افغانستان سمیت بیرونی ممالک بھی برآمد کیا جاتا ہے۔ کاشتکاروں کا کہنا ہے کہ اگر حکومتی سطح پر کسانوں کی رہنمائی کر لی جائے تو اسٹرابیری کی پیداوار میں مزید بہتری آئے گی۔
ضلع چارسدہ کے علاقے سرکی کے ایک کاشتکار مدبر شاہ کو اپنی 3 ایکڑ کھیتی سے اچھی آمدن کی بہت امیدیں ہیں جو کہ تقریباً پکی ہوئی اسٹرابیریوں سے ڈھکی ہوئی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ زمین ہر قسم کے پھلوں کے لیے بہترین ہے لیکن ملک کے اندر مہنگائی اور بالخصوص کھاد کی قیمتوں میں ہوشربا اضافے کی وجہ ان پھلوں کے منافع کو حد درجہ کم کر دیا ہے۔
مدبر شاہ نے بتایا کہ ” ڈی پی کھاد کچھ عرصہ پہلے پانچ ہزار کی بوری ملتی تھی جو کہ اب 11 ہزار پانچ سو روپے کی ہے۔ فصل کو کیڑے سے بچانے کے لیے سپرے جو پانچ سو روپے میں ملتا تھا اب مارکیٹ میں پندرہ سو روپے کا ہے۔ ملک میں جاری مہنگائی کی وجہ مزدور کی اجرت کے علاوہ فصل کو محفوظ رکھنے والی دوائیاں بھی مہنگی ہوگئی ہیں۔ اس کے علاوہ کھاد کی قیمت آسمان سے باتیں کرنے لگی ہیں”۔
کسانوں کا کہنا ہے کہ اسٹرابیری کی پیداوار کے لیے فروری سے لیکر مئی تک بہترین موسم ہے۔ ایک ایکڑ رقبے پر سٹرابری کے تیس ہزار پودے لگائے جا سکتے ہیں اور ہر پودے سے اوسطاً آدھا کلو پیداوار حاصل ہوتی ہے۔
ایک اور کسان مطہر شاہ کا کہنا ہے کہ تین ایکڑ رقبے سے 50 ہزار کلو گرام اسٹرابیری کی پیداوار کا اندازہ لگایا جاتا ہے جو افغانستان سمیت خلیجی ممالک کو برآمد کیا جاتا ہے۔ لیکن افغانستان اور پاکستان کے درمیان تجارتی پالیسی میں عدم استحکام کی وجہ سے زیادہ تر کسانوں کو نقصان ہوتا ہے۔
مطہر شاہ کا کہنا ہے کہ ” ہمارے کھیتوں سے روزانہ کے حساب سے 15 ہزار یا اس سے زائد کلو سٹرابیری افغانستان برآمد کیا جاتا ہے۔ اگر دونوں ممالک کے درمیان تجارتی پالیسی خراب ہو اور بارڈر بند ہو تو یہ تازہ پھل دوسرے روز خراب ہوجاتا ہے جس کا سارا نقصان تاجروں کو اٹھانا پڑتا ہے”۔
اپنے منفرد ذائقے، رنگ اور اعلیٰ غذائیت کی وجہ سے اسٹرابیری کو شائقین بہت پسند کرتے ہیں جو بہار کے موسم میں مارکیٹ میں اس کی آمد کا انتظار کرتے ہیں۔ خیبرپختونخوا کے محکمہ زراعت کے شعبہ بیج کے سربراہ عبدالقیوم خان کا کہنا ہے کہ کاشتکار دیگر فصلوں کے مقابلے میں اسٹرابیری سے چھ گنا زیادہ آمدنی حاصل کرتے ہیں اور یہ ہمارے صوبے کا بہت ہی خاص پھل ہے۔
عبدالقیوم خان نے بتایا کہ ” اسٹرابیری کا موسم فروری کے آخر میں شروع ہوجاتا ہے اور اس وقت اس کی قیمت بہت زیادہ ہوتی ہے۔ سندھ کے علاوہ ہمارے ملک میں اسٹرابیری کا پیداوار بہت ہی ناپید ہے اور یہ خیبرپختونخوا کا ایک اہم پھل ہے اور اس کی کوالٹی بہت معیاری ہے”۔
اگرچہ سٹرابیری خیبر پختونخوا کے کسانوں کے لیے ایک منافع بخش فصل ہے، لیکن موسمیاتی تبدیلی ایک بڑا خطرہ ہے۔ کسانوں کا کہنا ہے کہ یہ فصل بے وقتی بارشوں اور سیلاب کی وجہ سے خراب ہو جاتا ہے۔
مدبر شاہ کا کہنا تھا کہ "گزشتہ سال ہم نے تین ایکڑ زمین پر2 لاکھ روپے خرچ کیے۔ بارشوں کی وجہ سے پوری کھیت زمین کے اندر دھنس گئ اور پیداوار میں نقصان ہوا۔ ہم نے پوری فصل کو ایک لاکھ روپے میں بھیج دیا۔ لیکن اب ضلع دیر سے لائے گئے اسٹرابیری کے پودوں میں منافع ہے، وہ پودے سخت موسم کا مقابلہ کرنے کے قابل ہیں”۔
کاشتکاروں کا کہنا ہے کہ اسٹرابیری کی کاشت کے حوالے سے تکنیکی ہدایات نہ ہونے کی وجہ سے پھل کا پیداوار معیاری نہیں۔ جس کی وجہ سے انہیں نقصان کا سامنا ہے۔
کاشتکاروں کا کہنا ہے کہ انہوں نے اپنے کھیتوں میں اسٹرابیری کے لیے UHDP (الٹرا ہائی ڈینسٹی پلانٹیشن) طریقہ استعمال کیا ہے اور دوسرے کاشتکاروں کو مشورہ دیا کہ وہ متبادل تلاش کریں، کاشت کی لاگت کو کم کریں اور پھلوں کی ان اقسام کے لیے منڈی تلاش کریں۔ وہ توقع کرتا ہے کہ کاشتکار روایتی طریقوں کو تبدیل کریں اور منافع بخش اسٹرابیری متعارف کروائیں اور سال بھر میں مصنوعات کو کئی گنا بڑھانے کے لیے انٹرکراپنگ کے طریقے استعمال کریں۔