عوام کی آواز

خیبر: کیا واقعی مقامی جرگے نے خواتین کو مفت آٹا لینے سے منع کیا ہے؟

کیف آفریدی

خیبر پختونخوا کے ضلع خیبر کی تحصیل باڑہ شلوبر میں گزشتہ روز مقامی جرگے نے فیصلہ کیا تھا کہ مفت آٹا لینے کے لئے خواتین کو لائنوں میں کھڑے ہونے کی اجازت نہیں دی جائے گی جبکہ جرگے کے بقول مفت آٹے کی تقسیم کے دوران بدنظمی کی وجہ سے خواتین کی تذلیل ہوتی ہے.

اس حوالے سے سوشل میڈیا پر بھی مخلتف قسم کی خبریں شیئر ہو رہی ہیں جس میں صارفین نے جرگے کی اس اقدام کی مخالف کرتے ہوئے کہا ہے کہ ضلع خیبر میں قانون ہونے کے باجود قومی مشران اپنے فیصلے خود کر رہے ہیں۔

ضلع خیبر سے تعلق رکھنے والے صحافی خیال مت شاہ کے مطابق اس میں کوئی صداقت نہیں ہے کہ مقامی جرگہ خواتین کو مفت آٹے سے محروم کر رہا ہے جبکہ یہ فیصلہ دو دن پہلے مقامی کمیٹی اور شلوبر قومی کونسل نے متفقہ طور کیا ہے جس میں ان کا موقف ہے کہ بازار میں ملنے والے مفت آٹے کی تقسیم کا عمل متعدد بار بدنظمی کا شکار رہا جس کے باعث دور آفتادہ علاقوں سے آئی ہوئی مستحق خواتین آٹا خصول کے بغیر گھر واپس لوٹ جاتی ہیں جبکہ ڈسٹری بیوشن پوائنٹس پر بھی لڑائی جھگڑے کی وجہ سے بھی ان کی بے حرمتی ہوتی ہے۔

واضح رہے کہ ضلع خیبر میں مفت آٹا نہ ملنے پر درجنوں خواتین نے کئی بار پاک افغان شاہراہ کو احتجاجی طور پر بند کیا تھا جس کے لئے وہ سڑکوں پر نکل آئی تھیں۔

جرگے کے مطابق اسی تناظر کو مدنظر رکھتے ہوئے شلوبر قومی کونسل نے فیصلہ کیا ہے کہ خواتین گھروں سے باہر نہ نکلے جبکہ آٹے کے حصول کے لئے ایک طریقہ کار اختیار کیا جائے جس سے خواتین اور مستحق افراد کو آسانی میسر ہو۔

شلوبر کونسل کمیٹی کے اقدامات کیا ہیں؟

خیال مت شاہ کے بقول کمیٹی کا فیصلہ درست ہے کیونکہ شلوبر قبیلے کی ایک لاکھ آبادی کے لئے آٹے کے چار کوٹے فراہم کیے گئے تھے جو نہ صرف ناکافی تھے بلکہ ساتھ میں خواتین کو آٹا حاصل کرنے میں مشکلات کا سامنا بھی کرنا پڑتا تھا۔ انہوں نے بتایا کمیٹی نے اپنی مدد آپ کے تحت علاقے میں 22 پوائنٹس قائم کیے جہاں پر نا صرف سرکاری آٹا بلکہ مختلف غیرسرکاری تنظیموں اور صاحب استطاعت لوگ کی جانب سے بھی اس پوائنٹس پر آٹا اور دیگر رمضان راشن مہیا کئے جاتے ہیں۔

خیال مت شاہ کے مطابق مقامی سطح پر کمیٹیوں کا کردار اس لیے بھی قابل تعریف ہے کیونکہ کہ ان کے پاس پہلے سے اپنے اپنے علاقوں کا ڈیٹا موجود ہوتا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ ضلع خیبر بھی دہشتگردی سے متاثرہ قبائلی ضلع ہے تو آبادکاری کے بعد یہاں پر مختلف قسم کی غیرسرکاری اداروں اور فلاحی تنظیموں نے متاثرین کی مدد کی ہے ،خواہ وہ مالی رقم ہوں یا راشن کی مد میں، تو اس لیے یہی مقامی کمیٹیاں اپنے علاقے کے تمام تر کوائف سے باخبر ہوتی ہیں، یہ کہنا غلط ہے کہ کمیٹی نے خواتین پر سرکاری آٹا لینے کی پابندی عائد کی ہے، ابھی بھی بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے تحت خواتین باڑہ بازار میں متعقلہ سنٹرز سے پیسے وصول کرتی ہیں تو میرے خیال میں شلوبر قومی کونسل نے جو کام کیا ہے وہ قابل ستائش ہے۔

انتظامیہ سرکاری آٹے کی تقسیم میں کیوں ناکام ہے؟

سماجی کارکن محمد جمیل آفریدی کے مطابق بھوک اور خالی پیٹ ایک ناسور ہے جو نہ کسی روایات کو مانتا ہے اور نا ہی مذہب کو، خالی پیٹ صرف کھانا مانگتا ہے۔

محمد جمیل کے مطابق جب سے صوبے میں مفت آٹے کی تقسیم کا عمل شروع ہوا ہے تب سے ہر روز مخلتف ڈسٹری بیوش پوائنٹس پر بدنظمی کی خبریں سامنے آتی ہیں جس میں بھگڈر کے دوران کئی افراد جاں بحق اور متعدد زخمی ہوئے ہیں جبکہ انتظامیہ بھی شہریوں کو کنٹرول کرنے میں ناکام نظر آ رہی ہے۔

"دراصل یہ حکومت کی ناکامی ہے، حکومت عوام کو آٹا بھی دے رہی ہے اور ساتھ میں موت بھی، مغرب کہاں تک پہنچ گیا اور یہاں انتظامیہ لوگوں کو قطار میں کھڑا ہونے کی تربیت تک نہیں دے سکی۔”

خیال رہے کہ خیبر پختونخوا سمیت ملک بھر میں 20 مارچ سے مفت آٹے کی تقسیم کا عمل شروع ہوا ہے جو کہ 25 ویں رمضان المبارک تک جاری رہے گا۔

خیبر پختونخوا کی نگران حکومت کی جانب سے بھی صوبہ بھر میں 57 لاکھ پچاس ہزار گھرانوں کو 30 کلو مفت آٹا دینے کا فیصلہ ہوا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق اب تک 12 لاکھ خاندانوں کو مفت آٹا دیا جا چکا ہے لیکن بدقسمتی سے مختلف علاقوں سے بھگدڑ اور لڑائی جھگڑے کی خبریں دیکھنے اور سننے کو مل رہی ہیں۔

مفت آٹے کے حصول کا طریقہ کار کیا ہے؟

مفت آٹے کی حصول کے لئے شہریوں کا بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام میں رجسٹرڈ ہونا لازمی ہے جبکہ شہری اہلیت جاننے کے لیے 8070 پر شناختی کارڈ نمبر میسج کریں اور اہل ہونے پر اصلی شناختی کارڈ کے ساتھ متعقلہ سینٹر جا کر مفت آٹا حاصل کر سکتے ہیں۔

Show More

Salman

سلمان یوسفزئی ایک ملٹی میڈیا جرنلسٹ ہے اور گزشتہ سات سالوں سے پشاور میں قومی اور بین الاقوامی میڈیا اداروں کے ساتھ مختلف موضوعات پر کام کررہے ہیں۔

متعلقہ پوسٹس

Back to top button