سیلاب کے بعد آٹا بحران: ”آگے اللہ ہی جانے کہ ہمارا کیا ہو گا”
اقبال کاکڑ
ضلع لورلائی کے گاؤں گورمی سے تعلق رکھنے والے ارمان خان اپنی آٹے کی چکی کے شور میں ہلکان اور سوچوں میں ڈوبے کھڑے ہیں، ان کا گھر ہی نہیں ان کی زرعی اراضی بھی گزشتہ سال اگست میں آںے والے سیلاب میں بہہ چکی ہے۔
ارمان خان کے مطابق آج کل وہ محنت مزدوری کرتے اور یومیہ چار پانچ سو روپے کماتے ہیں لیکن مہنگائی کے اس دور میں وہ ان پیسوں سے دس افراد پر مشتمل اپنے خاندان کی آٹے کی ضرورت بھی پوری نہیں کر سکتے، ”جون جولائی میں تیز بارشیں ہوئیں، سیلاب آئے اور ہمارا جو گھر تھا وہ تباہ ہوا، کاشتکاری بھی ختم ہو گئی، اس وقت میں محنت مزدوری کرتا ہوں یعنی روزانہ کرتا ہوں، ابھی چکی آیا ہوں کیونکہ اس وقت آٹا سات ہزار سے بھی مہنگا ہے، مہنگائی بہت ہی زیادہ ہے، خاندان بھی بڑا ہے، میں یہ برداشت، ضروریات پوری نہیں کر سکتا۔”
دوسری جانب صوبائی وزیر خوراک زمرک خان کا ایک پریس کانفرنس کے موقع پر کہنا تھا کہ بلوچستان میں آٹا بحران کی ایک بڑی وجہ گزشتہ سال ہونے والی بارشوں اور ان کے نتیجے میں آںے والے سیلاب کے باعث گندم کے ذخائر کا خراب ہونا ہے، ”ہم نے ٹوٹل دو لاکھ چھیانوے ہزار (ٹن) خریداری کی اور ہم نے اپنے گوداموں میں پہنچا دیا، اس میں کوئی وہ شک نہیں بالکل گندم خراب ہوا ہے، اس میں لوکل جو ذخیرہ اندوز تھے یا جو لوکل زمیندار تھے، انہوں نے بھی سٹور کیا تھا، ان کی بھی گندم خراب ہوئی ہے، آدھی سے زائد گندم سیلاب کے دوران خراب ہوئی ہے (اور) اسی لئے یہ بحران پیدا ہوا۔”
ارمان خان کی طرح پٹھان کوٹ کے رہائشی کرم خان کا بھی یہی حال ہے، انہوں نے بتایا کہ تین دن سے ان کے گھر میں اپنے آٹے کی روٹی نہیں پکائی گئی ہے، ہمسائیوں سے آٹا قرض مانگ کر لاتے ہیں اور اب وہ پریشان ہیں کہ آگے کیا کریں گے، ”گزشتہ بارشوں میں تو ایک بار میری زمینیں، میرا سب کچھ بہہ کر تباہ ہوا، اب آٹا اتنا مہنگا ہے بھائی کہ آج تیسرا دن ہے کہ اگلے کے گھر سے قرض آٹا لاتے ہیں، اب وہ بھی اپنے قرض کا تقاضا کرتے ہیں لیکن ہم انہیں کیا دیں خود اتنی بساط نہیں کہ آٹا تک خرید سکوں، آگے اللہ ہی جانے کہ ہمارا کیا ہو گا۔”
ادھر وزیر خوراک زمرک خان بھی یہ بتا چکے ہیں کہ صوبائی حکومت اس قابل نہیں کہ اپنے عوام کو ارزاں نرخوں پر آٹے کی فراہمی کو یقینی بنا سکے نہ ہی ملک کی دیگر اکائیاں دل کھول کر تعاون کرنے پر آمادہ ہیں۔
صرف یہی نہیں بلکہ انہوں نے یہ خدشہ بھی ظاہر کیا تھا کہ اگلے دو ماہ میں آٹے کی قیمتوں میں مزید اضافہ بھی ہو سکتا ہے۔