متنی میں نادرا دفتر نہ ہونے کی وجہ سے عوام 32 کلومیٹر دور شناختی کارڈ بنوانے پرمجبور
خالدہ نیاز
پشاور کے علاقے متنی میں نادرا کیلئے دفتر مقرر ہونے کے باوجود فعال نہ ہوسکا جس کی وجہ سے متنی کے عوام 32 کلومیٹر دور پشاور شناختی کارڈ بنانے پر مجبور ہوگئے ہیں۔ متنی کے عوام کا کہنا کہ نادرا نے دفتر بھی کرائے پر لیا ہے مگر اب اسے فعال کرنے میں ٹال مٹول سے کام لے رہے ہیں۔
متنی سے تعلق رکھنے والے ارشد جان نے نادار کی دفتر کیلئے اپنا ایک گھر کرایہ پر دیا ہے اس نے محکمے کی ہدایات کے مطابق دفتر میں تمام سہولیات برابر کی ہے۔ ارشد جان کے مطابق نادرا دفتر مکمل طور پر تیار ہے اور ضرورت کے مطابق تمام سامان موجود ہے تاہم سٹاف نہ ہونے اور فعال نہ ہونے کی وجہ سے یہاں کے مکین دور دراز جاکر شناختی کارڈ بنوانے پرموجود ہیں۔
ارشد نے ٹی این این کو بتایا کہ متنی کا علاقہ 6 ویلج یونین کونسلز پر مشتمل ہے جن میں تقریباً 32 ہزار افراد یہاں آباد ہیں تاہم اس کے باوجود یہاں نادرا کی سہولت موجود نہیں ہے جس کی وجہ سے مقامی باشندوں اور خاص طور پر خواتین کو بہت مشکلات درپیش ہے۔
ارشد کا کہنا ہے کہ متنی میں نادرا آفس کی باقاعدہ منظوری ہوچکی ہے اور اسکے بعد نادرا اہلکاروں نے علاقے کا وزٹ بھی کیا اور انکے ساتھ اس حوالے سے معاہدہ بھی ہوا ہے لیکن ابھی تک نادرا دفتر کو فعال نہ کیا جاسکا۔
انہوں نے کہا کہ نادرا دفتر کے سلسلے میں حیات آباد نادرا دفتر کے بھی چکر کاٹ چکے ہیں مگر تاحال کوئی شنوائی نہیں ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ دفتر کا فرنیچر نہیں بنا جب بن جائے گا تو عملہ بھی آجائے گا اور نادرا دفتر فعال ہوجائے گا لیکن ابھی تک کچھ نہ ہوسکا۔
مشکلات کے حوالے سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بڈھ بیر کے علاقے میں نادرا کا دفتر موجود ہے لیکن وہاں پر انکے ساتھ ناروا سلوک کیا جاتا ہے اور کئی کئی گھنٹے گزرنے کے باوجود بھی انکی باری نہیں آتی جس کی وجہ سے مرد اور خواتین مجبوراً 32 کلومیٹر دور جاکر پشاور ڈینز میں اپنے شناختی کارڈ بنواتے ہیں۔
ارشد کہتے ہیں "پشاور میں جب خواتین آتی ہیں تو انکے ساتھ شیرخوار بچے بھی ہوتے ہیں اور کئی گھنٹوں تک قطار میں انتظار کرتی ہیں جب انکی باری آجاتی ہے تو نادرا والے ٹائم ختم ہونے پر دفتر بند کردیتے ہیں تو وہی خواتین دوبارہ جانے کی ہمت نہیں کرتی جس سے ہزاروں خواتین شناختی کارڈ سے محروم ہو کر رہ گئی ہیں”۔
ارشد نے بتایا کہ ایسے لوگ ڈینز آتے ہیں جن کا شناختی کارڈ کے بغیر گزارا نہیں ہوتا ورنہ تو ایسے کئی لوگ ہیں جن کے شناختی کارڈ نہیں ہے پر نادرا آفس قریب نہ ہونے کی وجہ سے وہ شناختی کارڈ ہی نہیں بنواتے۔
ارشد کے مطابق کچھ روز قبل ہونے والے بلدیاتی انتخابات میں بھی ہزاروں لوگ اس وجہ سے ووٹ نہ ڈال سکے کیونکہ انکے شناختی کارڈ نہیں تھے۔ کچھ لوگوں کے کارڈز بلاک ہوچکے ہیں جبکہ کچھ کے ایکسپائر ہوچکے ہیں۔
‘ یہاں متنی میں ایک ویلج کونسل میں قریبا 11 ہزار ووٹرز تھے لیکن وہاں پر صرف 1700 ووٹ پول ہوسکیں کیونکہ زیادہ تر لوگوں کے کارڈز بلاک ہیں اور کچھ کے ایکسپائر ہوچکے ہیں۔ قریب میں نادرا دفتر ہے نہیں جہاں وہ جاکر اپنے شناختی کارڈ بنواسکیں’۔
اس حوالے سے جب پشاور کے نیشنل ڈیٹابیس رجسٹریشن اتھارٹی کے ایچ آر اور اپریشن برانچوں سے ٹیلیفون پر بات کرنے کی کوشش کی گئی تو جواب دیا گیا کہ اس ضمن میں بات نہیں کرنا چاہتے ہیں۔
ٹی این این کو نادرا ذرائعوں نے بتایا کہ صوبہ بھر میں آبادی کے لحاظ سے نادرا کے دفاتر انتہائی کم ہے۔ دیہاتی اور قبائلی اضلاع میں دفاتر نہ ہونے کے برابر ہے جس سے عوام کو سخت تکلیف کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
نادرا ذرائع کا کہنا ہے کہ متنی یا دیگر دفاتر کھولنے کیلئے جگہ اور علاقے کا جائزہ لیا گیا ہے مگر ایچ آر اور اپریشن برانچز میں بیٹھے حکام ان کو زیرغور نہیں لاتے ورنہ یہ مسئلہ ایک ماہ کے اندر حل ہوسکتا ہے۔
متنی کے عوام نے عوام نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ انکے علاقے میں منظور شدہ نادرا آفس کو جلد از جلد عوامی سہولت کے لیے فعال کیا جائے تاکہ لوگ اپنی دہلیز پر شناختی کارڈ بنواسکیں۔