عوام کی آوازلائف سٹائل

خیبرپختونخوا میں 7 سال گزرنے کے باوجود معذور افراد کے لیے قانون سازی نہ کی جاسکی

 

رفاقت اللہ رزڑوال

خیبرپختونخوا میں معذور افراد کے حقوق کی تنظیموں نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ 2014 سے التواء کا شکار ‘خیبرپختونخوا معذور افراد کو بااختیار کرنے کا قانون’ کی ڈرافٹ کو قانونی شکل دی جائے اور محکمہ سوشل ویلفئر سے انکے فلاح کیلئے تاخیر کا شکار فنڈ جاری کیا جائے ورنہ مطالبات پورے نہ ہونے کی صورت میں وہ احتجاج کے ساتھ پشاور ہائی کورٹ سے بھی رجوع کرینگے۔

انکے یہ مطالبات ایسے حال میں سامنے آئے ہیں جب ہرسال اقوام متحدہ کی جانب سے 3 دسمبر کو معذوروں کا عالمی دن منایا جاتا ہے جس کا مقصد زندگی کے ہر تعمیری عمل میں معذور افراد کو بھرپور شرکت کے مواقع فراہم کرنا ہے۔

خیبرپختونخوا میں خصوصی افراد کی ترقی، فلاح و بہبود کی غیرسرکاری تنظیم سپیشل پرسنز ڈیویلپمنٹ ایسوسی ایشن (ایس پی ڈی اے) کے صدر احسان اللہ داؤدزئی نے ٹی این این کو بتایا کہ وہ خود ایک پاؤں سے معذور ہے جس کی وجہ سے انہیں کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے مگر خیبرپختونخوا میں تاحال معذور افراد کیلئے کوئی قانون سازی نہیں کی گئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ صوبائی اسمبلی میں سال 2014 سے تاخیر کا شکار ڈس ایبلیٹی ایکٹ کے ڈرافٹ کو سات سال بعد قانونی شکل نہیں دی گئی، کہتے ہیں کہ اس میں معذور افراد کے لئے سرکاری محکموں میں 4 فیصد نوکریوں کا کوٹہ، سرکاری دفاتر کو رسائی کی سہولیات اور انکی تعلیم کیلئے اقدامات شامل ہیں۔

لیکن دوسری جانب صوبائی وزیر قانون فضل شکور خان’خیبرپختونخوا ایمپاورمنٹ پرسن آف ڈس ایبیلیٹی ایکٹ 2014′ کے ڈرافٹ سے لاعلم رہے اور ٹی این این کو بتایا کہ اس بارے میں انہیں کوئی معلومات نہیں اور وہ دفتر جاکر اس ڈرافت کی تفصیل طلب کرینگے۔

ایس پی ڈی اے کے صدر احسان نے بتایا کہ خیبرپختونخوا میں تمام صوبوں کی نسبت معذور افراد کی شرح زیادہ ہے اور اسکی وجہ یہ ہے کہ صوبہ میں دہشتگردی کی لہر نے زیادہ افراد کو متاثر کیا ہے۔

کہتے ہیں کہ انکی فلاح کیلئے محکمہ سوشل ویلفئر سے 2016 میں 19 کروڑ روپے جاری ہونے کی منظوری دی گئی تھی مگر سات سال گزرنے کے باوجود بھی وہ نہ مل سکے۔

احسان کہتے ہیں ” حکومت کو قانون سازی کا کہہ کہہ کر اب ہم تھک چکے ہیں اسلئے ہم 3 دسمبر کو احتجاج کے طور پر منا رہے ہیں، خدارا ہمارے لئے قانون سازی کی جائے ورنہ ہم نہ صرف احتجاج پر مجبور ہوجائیں گے بلکہ ہائی کورٹ سے بھی رجوع کرینگے”۔

ضلع خیبر سے تعلق رکھنے والی ایک ٹانگ سے محروم سکینہ افریدی نے بتایا کہ انکے معاشرے میں پہلی ہی سے خواتین مختلف روایات کی وجہ سے مشکلات کا شکار ہیں لیکن معذور خواتین کی حالات اور بھی خراب ہے۔
سکینہ افریدی کہتی ہے "پہلے تو خاتون گھر سے نکل نہیں سکتی اور جب مجھ جیسی ٹانگوں سے محروم خاتون ہو اور کسی سرکاری جگہ میں کسی کام کے غرض سے جاتی ہو تو وہاں پر سیڑھیوں سے چڑھنے کیلئے دوسرے افراد کی مدد لے رہی ہو اور وہ زیادہ تر مرد ہوتے ہیں تو اس وجہ سے میں مشکل میں ہوتی ہوں”۔

سکینہ کہتی ہے کہ انکی برادری میں ہرقسم کی باصلاحیت، تعلیم یافتہ نوجوان اور خواتین موجود ہیں جو نارمل انسانوں سے زیادہ صلاحیت رکھتے ہیں۔ اگر معذور خواتین کو مواقع مل جائیں تو وہ نہ صرف اپنی خاندان کیلئے سہولت کا ذریعہ بن سکتی ہے بلکہ ایک خود انخصار زندگی بھی گزار سکتی ہے۔
کوویڈ-19 سے معذوروں افراد مزید متاثر ہوئے جس پر اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں کوویڈ-19 کے عالمی بحران نے پہلے ہی سے موجود عدم مساوات کو مزید گہرا کر دیا ہے۔

انکے مطابق اس وقت دنیا بھر میں تقریباً 1 ارب لوگ معذوری کا شکار ہیں، کہتے ہیں کہ عام حالات میں معذور افراد کی صحت کی دیکھ بھال، تعلیم، روزگار تک رسائی اور دیگر معمولات زندگی میں حصہ لینے کے امکانات کم ہوتے ہیں تو ضرورت اس بات کی ہے کہ مربوط حکمت عملی کے تحت ایسی پالیسیاں مرتب کی جائے تاکہ معذور افراد پیچھے نہ رہ جائیں۔

وزارت داخلہ کی زیرنگرانی نادرا کے اعداد و شمار کے مطابق اس وقت ملک بھر میں 3 لاکھ 71 ہزار 833 معذور افراد موجود ہیں۔ نادرا کے مطابق پنجاب میں 1 لاکھ 47 ہزار 539، خیبرپختونخوا میں 1 لاکھ 16 ہزار 491، سندھ میں 69 ہزار 387، بلوچستان میں 10 ہزار 495، آزاد جموو کشمیر میں 13 ہزار 329، گلگت بلتستان میں 7ہزار 886 اور اسلام آباد میں 6 ہزار 706 افراد مختلف قسم کے معذوری کا شکار ہیں۔

اس سال کے شروع میں سپریم کورٹ آف پاکستان نے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو خصوصی افراد کو بااختیار بنانے کے لیے اقدامات کرنے کی ہدایت کی تھی۔

مگرتاحال خیبرپختونخوا میں معذور افراد کیلئے ایسا کوئی قانون منظور نہیں کیا گیا ہے۔ صوبے کے وزیرقانون فضل شکور خان نے ٹی این این کو بتایا کہ خصوصی افراد کیلئے قانونی ڈرافٹ کے بارے میں انہیں علم نہیں لیکن انہوں نے بتایا کہ خصوصی افراد کیلئے قانون لانا وقت کی ضرورت ہے اور حکومت انکی حقوق کی تحفظ کیلئے اقدامات اُٹھائیں گے۔

عالمی رپورٹ برائے معذور افراد ڈبلیو آر ڈی نے 2011 میں اندازہ لگایا تھا کہ دنیا بھر میں ایک ارب سے زائد افراد کسی نہ کسی شکل میں معذوری کا شکار ہیں اور ہر ساتویں شخص میں سے ایک ممکنہ طور پر معذور ہے۔

رپورٹ کے مطابق معذور افراد کو چھوڑنا نہ صرف انہیں بلکہ ان کے خاندانوں کو نقصان پہنچاتا ہے اور اسی طرح معیشت کیلئے بھی تقریباً 127 ارب روپے سالانہ لاگت آتی ہے۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button