ہمارے تعلیم یافتہ نوجوان کم تنخواہ پر بھی کام کرنے پر کیوں تیار ہو جاتے ہیں؟
عیشا صائمہ
اس فکر معاش کے مارے لوگ
کچھ ہارے، کچھ جیتے ہوئے لوگ
ہر انسان شعور کی منازل طے کرنے کے بعد جب عملی زندگی میں قدم رکھتا ہے تو اس کا سب سے بڑا مسئلہ روزی کمانا ہوتا ہے۔ ہم اس بات سے بھی انکار نہیں کر سکتے کہ بہت سے نوجوان جو ڈگریاں لے کر در در کی ٹھوکریں کھاتے پھرتے ہیں ان کا بھی سب سے بڑا مسئلہ فکر معاش ہی ہے۔ ہمارے ملک میں پڑھے لکھے لوگ یہی سوچ رہے ہوتے ہیں کہ وہ پیسے کمانے کے لئے کون سا کام کریں کیونکہ نوکری تب تک نہیں ملتی جب تک ان کے پاس تجربہ نہ ہو۔
اور ان نوجوانوں میں زیادہ تعداد مڈل کلاس کی ہے یا پھر اس سے بھی کم لوئر طبقے کی، لوئر طبقے کے لوگ دیہاڑی پہ کام یا مزدوری کر کے اپنی اور اپنے گھر والوں کی ضروریات پوری کر لیتے ہیں لیکن مڈل کلاس نوجوان پہلے تو تعلیم حاصل کرنے کے لئے کافی مشکلات سے گزرتے ہیں، پھر جب نوکری کی تلاش میں در در کی ٹھوکریں کھا لیتے ہیں تو کم تنخواہ پر بھی کام کرنے پر تیار ہو جاتے ہیں کہ کچھ نہ ہونے سے کچھ ہونا بہتر ہے۔
اسی طرح کچھ نوجوان اسی فکر معاش کے ہاتھوں تنگ آ کر پردیس سدھارتے ہیں کہ وہاں جا کر شاید اپنی اور اپنے گھر والوں کی ضروریات پوری کر سکیں لیکن وہاں بھی جب تک تعلیم کے ساتھ آپ کے پاس ہنر نہیں ہے تو آپ کامیاب نہیں ہو سکتے۔ کچھ لوگ کم پڑھے لکھے ہونے کے باوجود پڑھے لکھے لوگوں جتنا کما لیتے ہیں کیونکہ ان کے پاس ایک ہنر ہوتا ہے۔ ہر جگہ محنت سے کام کرنے والوں کی مانگ زیادہ ہے۔ جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ بیرون ملک جا کر وہ بہت پیسہ کما لیں گے، یہ کسی حد تک ان کی بھول ہے کیونکہ وہاں جا کر بھی بہت محنت سے کام کرنا پڑتا ہے، جو یہاں محنت میں عار محسوس نہیں کرتے وہ وہاں بھی محنت اور لگن سے کام کر کے بہت اچھا کما لیتے ہیں۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ اگر حکومت کارخانے لگائے اور لوگوں کو روزگار کے مواقع اپنے ملک میں دے تاکہ کوئی بھی اپنوں سے دور جانے پر مجبور نہ ہو۔ دوسری بات یہ بھی ہے کہ نوجوانوں کے لئے ایسے پروگرام تشکیل دیئے جائیں کہ وہ کم سے کم سرمائے میں اپنا کام شروع کر سکیں اور بہتری کی طرف اپنے قدم بڑھا سکیں۔
اس کے علاوہ وہ نوجوان جو تعلیم حاصل کر چکے ہیں، ان کو انہی اداروں میں تربیتی کورسز کروائے جائیں اور اسی کی بنیاد پر انہیں نوکریاں دی جائیں تاکہ وہ اپنے، اپنے خاندان بلکہ پورے معاشرے کے لئے ایک فعال رکن کے طور پر سامنے آ سکیں نہ کہ فکر معاش کی چکی میں پس کر غلط راہوں کے مسافر بن جائیں۔