ٹی این این کی دو خواتین صحافیوں نے ایوارڈز جیت لیے
خالدہ نیاز
مردان سے تعلق رکھنے والی دو خواتین صحافیوں کو خواتین کے مسائل اجاگر کرنے پر ایوارڈز دیئے گئے ہیں۔
ایہ ایوارڈز مردان کے غیرسرکاری ادارے ”جذبہ” کی جانب سے دیئے گئے، اس سلسلے میں ایک تقریب کا اہتمام کیا گیا جس میں مختلف شعبوں میں نمایاں کارکردگی دکھانے پر 24 مرد و خواتین کو ایوارڈز سے نوازا گیا۔
ٹی این این کے ساتھ گفتگو میں سدرہ آیان نے اس حوالے سے بتایا کہ وہ اس ایوارڈ پر بہت خوش ہیں کیونکہ اس ایوارڈ سے ان کی کافی حوصلہ افزائی ہوئی ہے، ”اب مزید بہتر کام کرنے کی کوشش کروں گی۔”
سدرہ آیان نے کہا کہ دو سال قبل ٹی این این میں ٹریننگ لینے کے بعد انہوں نے عملی صحافت میں قدم رکھا اور وہ بہت دل سے اپنی صحافتی ذمہ داریاں سرانجام دے رہی ہیں، ”لڑکیوں کو اس فیلڈ میں آنا چاہیے کیونکہ جب تک وہ اپنے مسائل پر بات نہیں کریں گی کوئی اور ان کی بات نہیں سنے گا اور نہ ہی ان کے مسائل حل ہوں گے۔”
ادوسری خاتون صحافی ماہ نور شکیل بھی ایوارڈ ملنے پر بہت خوش ہیں، انہیں اس بات کی بھی خوشی ہے کہ وہ صحافت جیسے شعبہ میں کام کرتی ہیں اور ان کا مصمم ارادہ ہے آنے والے وقتوں میں بھی وہ مزید کام کریں گی تاکہ خواتین کے مسائل حل ہو سکیں۔
ٹی این این کے ساتھ گفتگو میں انہوں نے کہا کہ بدقسمتی سے خواتین سماجی مسائل کی وجہ سے عملی صحافت میں قدم نہیں رکھتیں، ”لیکن اب حالات بدل چکے ہیں، اب لڑکیوں کو بھی صحافت میں آنا چاہیے۔”
ادارے کی ترجمان نصرت آراء نے بتایا کہ خواتین کو ایوارڈز دینے کا مقصد ان کی حوصلہ افزائی کرنا ہے کیونکہ حوصلہ افزائی کرنے سے ان کے کام کو مزید تقویت مل سکتی ہے اور وہ جو کر رہی ہیں اس کو مزید بہتر بنانے کی کوشش کر سکتی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ تقریب بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے منعقد کی گئی تھی جس میں نوجوانوں اور خواتین کو سیاست میں شمولیت کی اہمیت سے روشناس کرانا تھا کہ کس طرح وہ سیاست کا حصہ بن کر لوگ کی خدمت کر سکتے ہیں اور علاقے کے مسائل حل کر سکتے ہیں۔
نصرت آراء کے مطابق کچھ خواتین جن کو ایوارڈز دیئے گئے وہ ان کے ساتھ منسلک ہیں، ماہ نور شکیل اور سدرہ آیان کو عوام کی آواز بننے کی وجہ سے ایوارڈز دیئے گئے کیونکہ مردان جیسے علاقے میں خواتین کے لیے صحافت کرنا بہت مشکل کام ہوتا ہے اور یہ دونوں بہت اچھا کام کر رہی ہیں اور خواتین کی آواز بن رہی ہیں۔
انہوں نے پیغام دیا کہ خواتین صحافیوں کو میدان میں آنا چاہیے کیونکہ اس طرح سے وہ باقی خواتین کی آواز بن سکتی ہیں اور ان کے مسائل کو سامنے لا سکتی ہیں۔