قبائلی لڑکیوں میں ظلم کے خلاف مزاحمت کا جذبہ پروان چڑھ رہا ہے
شمائلہ آفریدی
دنیا کی تاریخ اس امر کی گواہ ہے کہ روزِ اول سے مختلف معاشروں میں عورتوں کے ساتھ ظلم ہوتا رہا ہے۔ ستم ظریفی یہ ہی کہ عورت ہمیشہ سے ظلم کی چکی میں پستی چلی آ رہی ہے جس کی بنیادی وجہ یہ رہی ہے کہ کبھی عورت کے مقام و اہمیت کو سمجھا ہی نہیں گیا۔
صدیوں سے غلامی اور جبر کی تاریکیوں میں پھنسی عورت کو پیغیمبر السلامؐ نے اس کے صحیح مقام سے نوازا۔ قرآن پاک میں اللہ تعالی نے باقاعدہ سورۃ النساء میں عورت کے بلند مقام کو بیان کیا ہے۔ سورت النور میں بھی اللہ تعالی نے خواتین کے معمالات بیان کئے ہیں اور عورت کو نور یعنی روشنی سے تشبیہہ دی ہے۔
یوں تو پوری دنیا میں خواتین استحصال، جبر اور امتیازی سلوک کا شکار رہی ہیں لیکن پاکستان میں یہ مسائل بہت زیادہ شدت کے ساتھ موجود ہیں۔ پورے پاکستان میں عورتیں مختلف نوعیت کے مسائل میں گھری ہیں لیکن شہر کی نسبت قبائلی خواتین بنیادی حقوق سے زیادہ محروم ہیں۔ صدیوں سے قبائلی خواتین امتیازی قوانین، معاشرتی تعصب، رسم و رواج کے بندھن میں بندھی چلی آ رہی ہیں۔ غیرت کے نام پر قتل، تعلیم سے محرومی، صحت کی سہولیات کے فقدان، جبری شادی، انصاف تک رسائی میں ناکامی جیسے مسائل کا شکار رہی ہیں۔ ان تمام رسومات، روایات کی بنیاد جہالت، لاعلمی اور دین اسلام سے نا واقفیت تھی، جس کی وجہ سے قبائلی خواتین کبھی بغاوت نہیں کر سکیں اور اگر کہیں روایات کو جیلنج بھی کرتیں تو اسے موت کی نیند سلا دیا جاتا تھا۔ ستم ظریفی یہ بھی تھی کہ مردوں کے کرتوت، گناہ اور آپسی دشمنیوں کی بھینٹ بھی انہی خواتین کو چڑھایاا جاتا تھا جو یا اس کی بہن ہوتی، بیٹی یا پھر بیوی ہوتی تھی۔
زمانہ کروٹیں بدلتا رہا، شعور کی منزلوں تک پہنچنے کے بعد عورت گزشتہ صدی سے ہی ترقی کی راہ پر گامزن ہے تاہم موجودہ اکیسویں صدی میں تو معاشرے کی ترقی میں خواتین کے کردار سے انکار ہی نہیں کیا جا سکتا اور جسے معاشرہ بھی تسلیم کرنے لگا ہے۔ شہری خواتین ہر شعبہ زندگی میں اپنا مقام بنا رہی ہیں، اعلی عہدوں اور مناصب پر فائز ہیں۔
خواتین پر مردوں کی بالاستی ایک حقیقیت ہی سہی لیکن اب خواتین مردوں کے شانہ بشانہ، قدم سے قدم ملا کر اپنی طاقت اور صلاحیتوں کا مظاہرہ کر رہی ہیں جس کے اثرات قبائلی معاشروں میں بھی محسوس کئے جا رہے ہیں۔
موجودہ دور میں قبائلی علاقوں میں خواتین اور لڑکیاں بیدار ہو چکی ہیں، شرح خواندگی میں بھی کچھ حد تک اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے۔ آج قبائلی لڑکیاں صدیوں پرانی جاہلانہ روایات کے خلاف بغاوت پر اتر آئی ہیں، ان میں ظلم کے خلاف مزاحمت کا جذبہ پروان چڑھ رہا ہے لیکن یہ شرح قبائلی علاقوں میں شہروں کی نسبت انتہائی کم ہے۔
اخواتین کو ہمیشہ نفسیاتی طور پر مردوں کی بالادستی کا قائل سمجھا جاتا رہا ہے لیکن کچھ ایسی روایات ہیں جن کی وجہ سے خواتین کی بہت زیادہ حق تلفی کی جاتی ہے۔ فرسودہ روایات کی پیروری کرنا عورت کیلئے آج بھی لازم ہے۔ مرد اج بھی عورت کو غیرت کے نام پر قتل کروا کر اپنی مرادنگی دکھاتا ہے، اس پر وہ فخر بھی محسوس کرتا ہے۔ صدیوں پہلے رسم رواج کی جس چاردیواری میں عورت بند تھی آج بھی وہ اس چاردیواری مکمل طور پر آزاد نہیں ہے۔ آج کی عورت بھی زندگی کی سختیوں میں پس رہی ہے، بہت ساری رکاوٹیں ابھی بھی اس کی ترقی کی راہ میں حائل ہیں۔
قبائلی علاقوں میں خواتین کو ”سوارہ”، ”ژغ” جیسی رسومات سے چھٹکارا آج تک نہ مل سکا۔ آج بھی متعدد خواتین یا لڑکیوں کو مردوں کی دشمنی کی وجہ سے مخالفین کے حوالے کر دیا جاتا ہے۔ عقل شعور کی دولت سے انسان مالا مال ہو گیا مگر حالات ابھی تک نہیں بدلے۔ ان روایات کے خاتمے میں جہاں سماجی رویے بڑی رکاوٹ ہیں وہاں ناکافی حکومتی اداروں کی عدم توجہی بھی اس رکاوٹ کو پہاڑ بنا رہی ہے۔ قبائلی عورت آج بھی جائیداد کے حق سے، پسند کی شادی کرنے کے حق سے اور طبی اور تعلیم کی سہولیات سے محروم ہے، مرد حضرات کی بالادستی نے اس کو اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کے حق سے محروم رکھا ہے۔
معاشرے میں تبدیلی لانے کیلئے لوگوں میں بڑے پیمانے پر فرسودہ روایات کے خاتمے کیلئے آگاہی پھیلانے اور خواتین کو مزید بااختیار بنانے کی ضرورت ہے۔ قبائلی خواتین ایسی آزادی نہیں چاہتیں جہاں وہ ننگا سر لے کر گومتی رہیں، وہ ایسی ازادی کی قائل نہیں ہیں جس کی اسلام اجازت نہیں دیتا، وہ اس بات کا بھی اقرار کرتی ہیں کہ اللہ نے عورت کا درجہ مرد سے کم رکھا ہے، مرد کو عورت پر برتری دی گئی ہے لیکن اس کا مطلب تو یہ نہیں ہی کہ مرد حضرات ان سے وہ حقوق بھی چھین لیں جو اسلام نے انہیں دے رکھے ہیں۔
وقت آ گیا ہے کہ عورت کو یہ حقوق دیئے جائیں، اس کی عزت کی جائے، اس کی پسند ناپسند کا خیال رکھا جائے، اس کی رائے کا احترام کیا جائے، اس کی معمولی غلطیوں کو نظرانداز کیا جائے، اس کے انکار کو انکار سمجھا جائے اور اسے کسی جبر خوف کے بغیر زندگی گزارنے کا موقع دیا جائے۔ عورت اپنی خداداد صلاحیتوں کی بدولت ہر وہ کام کر سکتی ہے جو مرد کرتا ہے مگر مردوں کے سماج نے اسے اپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ کرنے سے روک رکھا ہے جس کی وجہ سے قبائلی علاقے ترقی کی دوڑ میں پیچھے رہ گئے ہیں۔