مہنگائی میں اضافہ کیوں ہوتا ہے؟
ناہید جہانگیر
”اللہ پردہ رکھ رہا ہے ورنہ موجودہ حکومت کا بس چلے تو بھوک سے ہی مار دے, نا رہیں گے غریب نا رہے گی غربت،” یہ کہنا تھا پشاور سے تعلق رکھنے والا رحیم گل کا جو سودا سلف لینے جب بھی مارکیٹ جاتے ہیں تو روزانہ کی بنیاد پر نیا نرخ نامہ ہوتا ہے۔ جو سبزی وہ پچھلے سال تیس یا چالیس روپے میں لیتے تھے اب سو سے کم نہیں ملتی، ”پہلے غریب لوگ گوشت چلو نا سہی سبزی دال تو پیٹ بھر کر کھا لیتے تھے لیکن اب تو وہ بھی غریب کے بس میں نہیں رہے کہ خرید کر کھا سکیں۔”
ٹی این این کے ساتھ بات چیت کے دوران انہوں نے مزید کہا کہ پہلے وقتوں میں چھ مہینوں یا سال میں ایک مرتبہ مہنگائی دیکھنے کو ملتی لیکن اب تو مذاق بن گیا ہے، آئے روز مہنگائی بڑھ رہی ہے، کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔
ورلڈ بینک کی رپورٹ کے مطابق 2021ء میں پاکستان میں غربت میں 6 فیصد اضافہ ہوا ہے، پٹرول کی قیمت میں ہر 15 دن کے بعد اضافہ ہو رہا ہے جس کی وجہ سے تمام ضروری اشیاء مہنگی ہوتی جا رہی ہیں۔
رحیم گل اور ان جیسے بہت سے ناخواندہ لوگ یہ نہیں جانتے کہ ملک میں مہنگائی کی اصل وجوہات کیا ہیں۔ جب اس سلسلے میں ماہر معاشیات ڈاکٹر شاہد خان سے تابطہ کیا گیا تو ان کہنا تھا کہ ملک میں مہنگائی کے اضافے کی ایک یا دو نہیں مختلف وجوہات ہوتی ہیں۔
ٹی این این کے ساتھ گفتگو میں انہوں نے کہا کہ مختلف وجوہات میں ایک اہم وجہ یہ ہے کہ جو بھی ملک سنٹرل بینک سے قرضہ لیتا ہے اور پھر اسے اتارنے کے لئے سب سے زیادہ نوٹ چھاپتا ہے تو اس ملک میں مہنگائی بڑھ جاتی ہے، اگرچہ ضروری نہیں ہے کہ ہر وہ ملک جو زیادہ نوٹ چھاپے وہاں مہنگائی ہو لیکن یہ ایک وجہ ضرور ہے۔
جہاں تک پاکستان میں بڑھتی ہوئی مہنگائی کی صورت حال ہے تو موجودہ حکومت نے گزشتہ 23 یا 24 مہینوں میں سنٹرل بینک سے کوئی قرضہ یا رقم نہیں لی، ایک قانون سازی کی گئی تھی جس کے تحت یہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ سنٹرل بینک سے کوئی قرضہ نہیں لیا جائے گا، اس کی جگہ کمرشل بینکوں، آئی ایم ایف یا اور ملکوں سے قرضہ لیا گیا ہے، ”جو بھی اشیاء بین الاقوامی مارکیٹ سے لی جاتی ہیں وہ جن مراحل سے گزر کر پاکستان پہنچتی ہیں تو اس کی وجہ سے بھی ان کی قیمتوں میں اضافہ ہو جاتا ہے اسی لیے پاکستانی مارکیٹ میں بھی پھر اسی حساب سے کافی مہنگی بیچی جاتی ہیں، ملک کی پیداروار کم ہونے کی وجہ سے زیادہ مانگ کو پورا کرنے کے لئے دارومدار برآمدات پر ہے، باہر ملکوں کی مارکیٹ میں جو چیز مہنگی خریدی جاتی ہے ظاہر ہے یہاں بھی مہنگی ملے گی، ملک کی پیداوار کم جبکہ طلب یا مانگ زیادہ ہے، کمی کو پورا کرنے کے لیے چینی، گندم، تیل، خشک دودھ وغیرہ برآمد کیا جاتا ہے، جس ملک میں بھی رسد اور طلب میں گیپ ہو مہنگائی میں اضافہ دیکھنے کو ملتا ہے، پاکستان میں رسد اور طلب میں کافی گیپ ہونے کی وجہ سے کافی مہنگائی ہے اور روز بروز اس میں اضافہ دیکنھے کو ملتا ہے۔ اس بات کو ایک عام بندہ نہیں سجمھ سکتا۔”
ڈاکٹر شاہد کے مطابق دوسری بڑی وجہ ملک میں ذخیرہ اندوزی کے رحجان کا بڑھنا ہے کیونکہ زیادہ طلب سے اشیاء خوردونوش کی قیمتوں میں اضافہ ہوتا ہے، ذخیرہ اندوزی کرنے والے مارکیٹ میں زیادہ ڈیمانڈ والی چیزوں کو بہت کم مقدار میں سپلائی کرتے ہیں، گودام میں چیزیں موجود ہوتی ہیں لیکن کم سپلائی کرنے سے ان کی قیمت زیادہ ہو جاتی ہے اور زیادہ منافع کماتے ہیں، ”یہ سب انتظامیہ کی کمزوری کی وجہ سے ہوتا ہے، اگر وہ ایکٹیو رہے، بروقت ایکشن لیا جائے تو ذخیرہ اندوزی کی نوبت نہیں آئے گی اور کافی حد تک مہنگائی پر قابو پایا جا سکتا ہے۔”
دوسری جانب پشاور شہر کی رہائشی ستر سالہ گلناز کہتی ہیں کہ دودھ، سبزیاں، گھی، آٹا، چینی، دالیں وغیرہ سب مہنگا ہو گیا ہے، بیس کلو آٹے کا تھیلا اب پندرہ سو روپے، اسی طرح پانچ کلو گھی کا ڈبہ اب تیرہ سو کا جبکہ دودھ ایک لیٹر ایک سو بیس روے کا ہو گیا ہے، یہ سے ایک غریب گھرانے کے لئے پورا کرنا مشکل ہو گیا ہے۔
ٹی این این کے ساتھ بات چیت میں گلناز نے کہا کہ مزدور کی مزدوری اکیس ہزار ماہانہ تو مقرر کی گئی ہے لیکن حکومت کی سوچ کو تالے لگے ہوئے ہیں کہ ایک مزدور کو کب روزانہ مزدوری ملتی ہے اور سب سے اہم بات تو یہ کہ بجلی بل صرف دس ہزرا تک آ جاتا ہے تو پورا مہنیہ کیسے گزاریں گے۔
انہوں نے مزید کہا کہ وہ حکومت اور انتظامیہ سے یہ کہنا چاہتی ہیں کہ غریب کی ماہانہ آمدنی کو مدنظر رکھ کر ریٹس بڑھایا کریں، ”ذرہ خود کو غریب عوام کی جگہ پر رکھ کر سوچیں کہ اتنی آمدنی میں وہ کس طرح زندگی گزار رہے ہوں گے۔”