طالبان کے ڈر اور خوف کی وجہ سے اپنے بچوں سمیت پاکستان آئی ہوں: گلشن بی بی
للمہ افغان
افغانستان میں طالبان کے قبضے کے بعد افغان شہریوں نے ڈر اور خوف کی وجہ سے دنیا کے دیگر ممالک سمیت پاکستان ہجرت کرنا شروع کر دیا ہے جنہیں نہ صرف راستے میں کافی مشکلات سامنے آرہے ہیں بلکہ یہی افغان شہری پاکستان میں بھی اپنے مستقبل کے حوالے سے کشمکش کا شکار ہیں۔
افغان طالبان کی جانب سے اقتدار پر قبضے کے بعد پاکستان کے صوبہ خیبرپختونخوا آئے ہوئے افغانستان کی یونیورسٹی کے طالب علم احمد خان نے کہا کہ وہ جلال آباد کا رہائشی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ وہاں پر کاروبار، صحت، تعلیم اور دیگر ضروریات زندگی ٹھپ ہو کر رہ گئی ہے جس کی وجہ سے وہ پشاور اپنے رشتہ داروں کے گھر آیا ہے۔
احمد خان کا کہنا ہے کہ وہ ننگرہار انجنیرنگ یونیورسٹی سے پڑھا ہوا ہے اور اب وہ اپنی تجربے کیلئے ننگرہار میں انجنیئرنگ کا کام کرتا ہے مگر طالبان کی کابل پر قبضے کے بعد انہیں لگنے لگا کہ وہ وہاں پر امن زندگی گزارے اور اپنے فیلڈ میں آگے جائے۔
انہوں نے افغانستان سے ہجرت کا واقعہ بیان کرتے ہوئے کہا کہ پہلے جب وہ ننگرہار ولایت سے طورخم بارڈر کے ذریعے آتے تو انتہائی سہولت کے ساتھ آتے لیکن شورش کے بعد طورخم کے مقام پر پاک افغان بارڈر بند کیا گیا ہے جسکی وجہ سے وہ چمن بارڈر کے ذریعے آئے۔
کہتے ہیں کہ چمن بارڈر تک پہنچنے کیلئے ہم نے تین دن اور دو راتیں سفر میں گزاری، پہلے ہم جلال آباد سے کابل، پھر زابل سے قندہار اور پھر رات کے دو بجے سپین بولدک پہنچے، ہمارے ساتھ خواتین اور بچے بھی تھے جنہوں نے پوری رات جاگ کے گزاری اور صبح آٹھ بجے چمن بارڈر کھولتے ہیں پار ہوگئے۔
احمد خان کہتے ہیں کہ پاکستان میں کوئٹہ سے پشاور تک ڈیڑھ شب و روز تک سفر کیا ان پانچ دنوں کی سفر سے ہمارے بچوں اور خواتین کے پھیروں میں چھالیں پڑے تھے۔
خان کا مطالبہ ہے کہ حکومت پاکستان اُنکی سہولت کیلئے طورخم بارڈر کھولیں، انہیں انسانی حقوق کے عین مطابق حقوق فراہم کرے، تعلیم کی سہولیات سمیت دیگر خدمات تک رسائی کے حصول کا اختیار دیا جائے۔
احمد خان نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ افغانستان میں عوام کی مہاجرت کی سب سے بڑی وجہ وہاں کی غیرمستحکم اور غیریقینی صورتحال ہے۔ انہوں نے کہا کہ کسی کو بھی معلوم نہیں کہ کون انکی مال اور جان کی تحفظ کو یقینی بنائے گا۔
کہتے ہیں کہ کاروبار ٹھپ ہوکر رہ گیا ہے اور تاجر بھی یہی چاہتے ہیں کہ اپنا سرمایہ افغانستان سے نکال کر کسی پرامن اور مستحکم نظام میں اپنی کاروبار کو جاری رکھے۔
افغانستان میں جاری کشمکش کی صورتحال سے نہ صرف مرد متاثر ہوئے بلکہ خواتین اور بچے بھی نہایت سخت مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں۔
تقریباً ایک ہفتہ قبل افغانستان سے خاتون گلشن بی بی بھی اپنے بچوں سمیت پشاور آچکی ہے، گلشن بی بی نے ٹی این کو اپنی مہاجرت کی وجوہات بتاتے ہوئے بتایا کہ وہ طالبان کے ڈر اور خوف کی وجہ سے اپنے بچوں سمیت پاکستان آئی ہے’
"سارے لوگ بھاگتے پھر رہے تھے ہمارے دلوں میں طالبان کا خوف ہے، ہمیں نہیں لگ رہا تھا کہ ہمارے جانیں محفوظ رہیں گے، ہم نے سامان سے بھرے گھر چھوڑ دیئے ہیں اور نکلے ہیں اب امید ہے کہ مستقبل میں حالات بہتر ہوجائیں گے اور ہم اپنے گھروں کو لوٹ جائیں گے”۔
گلشن بی بی کہتی ہے کہ اب وہ پشاور میں اپنے لئے کرائے کا گھر ڈھونڈ رہی ہے مگر انہیں سر چھپانے کیلئے چھت نہیں مل رہی، کہتی ہے جتنے پیسے اپنے ساتھ لائی تھی وہ ختم ہوگئے اب چاہتے ہیں کہ افغانستان میں امن قائم ہوجائے اور وہ واپس چلے جائیں۔