پہلا حصہ
چوبیس اگست کو صبح پشاور سے طورخم سرحد پہنچ گیا تو پہاڑوں کے درمیان اس تاریخی مقام پر پہلے والی گہماگہمی کہی نظر نہیں آئی، نہ نیلے اور سفید رنگ کے شٹل کاک برقعوں والی افغان خواتین نظر آئیں نہ بارڈر کراس کرنے کیلئے استعمال ہونے والی ہاتھ گاڑھیاں۔ نارمل حالات میں اس بارڈر پر کافی رونق ہوتی تھی لیکن آج فضا میں مایوسی واضح تھی، بارڈر کے دونوں طرف پہاڑ آج اپنے قد سے زیادہ بھاری اور خوفناک لگ رہے تھے۔
بارڈر پر امیگریشن امور نمٹانے کے بعد تنگ راہدری میں افغانستان کی طرف سفر شروع کیا یہ راہداری اتنی تنگ ہے کہ اس سے دو آدمی بیک وقت نہیں گزرسکتے۔
بارڈر پر پہنچنے پر پہلی تبدیلی جو تھوڑے فاصلہ سے نظر آئی وہ افغان سائڈ پر تین شوخ رنگوں والی پرچم کی عدم موجودگی تھی۔ یہ سب اتنا اچانک ہوگیا تھا کہ مجھے اپنی انکھوں پر یقین نہیں آرہا تھا، جھنڈے کے نیچے روایتی شلوار قمیص میں سکیورٹی پر مامور طالبان چوکس کھڑے تھے۔
افغانستان اب طالبان کے کنڑول میں ہے سوچا کہ اُس پار بھی پاسپورٹ اور دیگر دستاویزات کی جانچ پڑتال ہوگی اور طالبان کو اپنا منتظر پانے کا خیال ذہن میں گردش کررہا تھا۔ پڑوسی ملک کے حدود میں داخل ہوتے ہی ہے تنگ پیدل راستے میں خراب سی کرسی پر بیٹھے طالب کی شائد گھڑی خراب تھی اور گھڑی کی سوئیوں کو گھما رہا تھا۔ پاسپورٹ ، ویزا اور دیگر دستاویزات دیکھنا تو دور کی بات میرے گزرنے سے انہیں کوئی فرق ہی نہیں پڑا۔
صوبہ ننگر ہار کے علاقہ طورخم میں مرکزی شاہراہ پر پہنچا تو طالبان کی پہلی گاڑیاں دکھائی دی۔ لمبے بال، ماتھے پر آمارت اسلامی کی پٹی باندھی ہوئی اور جدید بندوق کی نلی پر ٹھوڑی ٹکائی تھی اور اپنے موبائل فون پر اسلامی آمارت کے ترانے سُن رہے تھے یہیں سے افغانستان میں تبدیلی احساس ہوجاتا ہے۔
بارڈر کے اُس پار طورخم ٹاون میں زندگی معمول کے مطابق چل رہی تھی بس اسٹینڈ میں کنڈیکٹروں کی ” یو نفر کابل” یعنی گاڑی میں ایک سواری کی گنجائش ہے والی آوازیں سننے کو ملی۔ یہ یہاں کی ایک غلط روایت ہے گاڑی میں سواریوں کی گنجائش تین ہوگی لیکن آواز ایک نفر کابل کی ہی سننے کو ملتی ہے۔ آج شائد سواریاں نہ ہونے کی وجہ سے انکی آوازیں اور بھی بلند ہوگئی تھی اسکا اندازہ اس سے بھی ہوتا تھا کہ کنڈیکٹر دور سے کسی ممکنہ سواری کو ہاتھ پکڑ کر گاڑی میں زبردستی سوار کرنے کی کوشش میں لگنے لگتے ہیں۔
یہاں سے صوبہ ننگر ہار کے دارالحکومت جلال آباد کے لئے سفر باندھ لیا، راستے میں فروٹ، سبزی اور دیگر اشیاءسے بھرے سینکڑوں ٹرک پاکستان کے حدود میں داخلے کے انتظار میں تھے۔ افغانستان فوج کی چوکیاں خالی پڑی تھی تاہم سرینڈر ہونے کے باعث اکثر پوسٹیں سلامت تھیں پورے راستے میں طالبان کے صرف دو چیک پوسٹ نظر آئے۔
دو گھنٹے کا سفر جلال آباد پر تمام ہوا جہاں زندگی رواں دواں تھی، بازاروں میں انڈین میڈ رکشوں کی شور نے پاکستان کے کسی بھی گنجان آباد روڈ کی یاد دلائی جہاں ایک بڑی گاڑی کے آگے پیچھے دس رکشے ضرور دیکھنے کو ملتے ہیں۔ شہر میں حکومت کے خاتمے کے بعد ٹریفک وارڈن بھی بے بس اور مایوس سڑک کنارے بے ہنگم ٹریفک کا نظارہ کررہے تھے۔
کابل میں حکومت نہ ہونے کے باعث قومی بینک کے تمام برانچز بند تھے جس کے اثرات نہ صرف جلال اباد بلکہ پورے ملک میں نمایاں تھے، بڑے شہروں میں معاشی زندگی تقریبا مفلوج ہوچکی ہے۔ جلال آباد میں خان عبدالغفار خان المعروف باچا خان کے مزار پر جانا چاہا لیکن وہاں بھی تالے لگے تھے، پوچھنے پر معلوم ہوا کہ اج صبح ہی طالبان نے سیکیورٹی خدشات کے پیش نظر ہرقسم کے زائرین کیلئے بند کردیا ہے۔
افغانستان کا پایہ تخت کابل کی طرف نکلے پڑے تو راستے میں صوبہ لغمان کی خوبصورتی دکھائی دی۔ ایک جانب پہاڑ اور دوسری جانب دریا کا پانی۔ اس تنگ راستے پر جانا کسی ایڈونچر سے کم نہیں تھا۔
گاڑی کیے پچھلی نشست پر براجمان اشرف غنی حکومت میں لغمان کے ایک ضلع کے ولسوال باور شاہ سویت یونین کی شکست اور اشرف غنی حکومت میں بجلی منصوبوں کو فروغ دینے کے تفصیلات سے آگاہ کررہا تھا۔ فارسی اور پشتو کی موسیقی سفر خوشگوار بنا رہی تھی مگر راستے میں طالبان کی گاڑی کو دور سے دیکھ کر ہی صرف گانا نہیں بلکہ پورا ساونڈ سسٹم ڈارئیور بند کرنا پڑا۔ طالبان حکومت کا بیس سال قبل والا ڈر آج بھی لوگوں کے ذہنوں پر طاری ہے۔
کابل کی طرف جاتے ہوئے مرکزی شاہراہ پر بے یارو مددگار کھڑے ٹینک سویت یونین کے شکست کی گواہی دے رہے تھے۔ ماہی پَر کی اونچی پہاڑی کو سر کرنے کے بعد کابل کے اندر داخل ہوتے ہی طالبان نے” کہاں سے آرہے ہو، کہاں جارہے ہو، گاڑی میں کون کون بیٹھا ہے "سے استقبال کیا۔ یہ جملے کانوں کو کافی اشنا لگے۔
پشتو ادب میں جس کابل کی منظر کشی کی گئی تھی درحقیقت یہ اس سے کئی گنا زیادہ خوبصورت اور بڑا تھا۔ مغربی طرز تعمیر کی بلند عمارتوں ، کشادہ سڑکوں اور بے ترتیب ٹریفک میں راستہ بناتے ہوئے شاہ دو شمشیر کے علاقہ پہنچا۔
کابل میں طالبان کی طرز زندگی، انداز اور رویوں پر افغانیوں کے تحفظات ہیں۔ ضرورت ہو ہا نہ ہرجگہ مجاہدین اے کے 47 اور دیگر اسلحہ لے کر گھومتے رہتے ہیں۔ ائیر پورٹ کے باہر لوگوں کے ہجوم کو سنبھالنے کے لئے طالبان فورس کے پاس ایک ہی راستہ تھا کہ وہ وقفہ وقفہ سے فائر کرے، طالبان ایک دوسرے کے ساتھ رابطہ کرنے کے لئے بھی ہوائی فائر کرتے تھے۔
ائیر پورٹ کے باہر روڈ پر امریکی فوج کی ٹرکیں جسے اسلحہ ، سامان اور فوجی دستوں کی منتقلی کے لئے استعمال کیا جاتا ہے اب بے یارو مددگار کھڑی ہیں۔
اگلے دن جب طالبان قیادت کی جانب سے اعلان ہوا کہ تمام بینک کھول دیے جائے تو کابل کے شہر نو میں بینکوں کے باہر رش لگ گیا۔ معمول کے مطابق رپورٹنگ کے لئے موبائل اور ٹرائی پارڈ ریڈی کیا تو لوگوں کا ہجوم میری طرف آیا۔ رش دیکھ طالبان کی گاڑی بھی رک گئی اور میری طرف ایک کم عمر طالب آیا جو پہلے فارسی اور پھر دری زبان میں بات کرنے لگا ، میں انشاءاللہ، ماشاءاللہ، سبحان اللہ اور الحمداللہ کہہ کر جواب دے رہا تھا، اتنے میں اسکا دوسرا ساتھی آیا اور میرا کارڈ دیکھا جس پرانگریزی زبان میں میرانام اور دیگر تفصیل دیکھی تو مجھے ” وٹ ہیری ڈینگ” میں نہیں سمجھا اور حیران ہوا۔ میرے ساتھ مقامی دوست نے فارسی میں ان سے بات کرکے معاملہ ٹھنڈہ کیا۔ بعد میں دوست نے بتایا کہ اصل میں طالبان بھی اس جدید دور میں انگریزی سیکھنے کی کوشش کررہے ہیں۔” وٹ ہیری ڈینگ مطلب واٹ آر یو ڈوئینگ”۔
بیس سال تک جنگ لڑنے والے طالبان اب خود بھی کابل شہر کی خوبصورتی دیکھ اسے نقصان نہیں پہنچا رہے ہیں۔
اسلامی آمارت کے ترانوں سے محظوظ ہونے والے طالبان جو ارگ کے باہر کھڑے تھے انہوں نے بتایا کہ شہر کا نقشہ بدل گیا ہے ہم خود عام عوام سے پوچھ کر مقررہ جگہ تک پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں۔
افغانستان کے بابائے ملت اور چالیس سال تک حکومت کرنے والے مقبرہ ظاہر شاہ اور انکے والد نادر شاہ جانے کا اتفاق ہوا وہاں کی رکھوالی کرنے والے امین اللہ نے کہا کہ طالبان حکومت کے اقتدار میں آنے کے بعد لوگوں نے مزار پر دھاوا بول دیا، یہاں بلب بھی اتار کرلے گئے، پانی کا نظام خراب ہوا اور فوارے خشک ہوگئے، توڑ پھوڑ کی بھی کوشش کی گئی لیکن ماں باپ کا واسطہ دیکر لوگوں کو پاوں پکڑ کر انہیں یہاں سے نکالا۔ (جاری ہے)