جب شہادت کی رات مولانا خانزیب نے کہا، "بڑا حادثہ ہونے والا ہے”… تو دل دھک سے رہ گیا

مصباح الدین اتمانی
پشاور کے لیڈی ریڈنگ اسپتال کے وہ ٹھنڈے، سناٹے بھری راہداری جہاں زندگی اور موت کی کشمکش چلتی رہتی ہے، وہیں میری ملاقات مولانا خانزیب شہید کے بھائی شیخ جان بادشاہ سے ہوئی۔ ان کی آنکھوں میں آنسو نہیں تھے، مگر دکھ ہر لفظ میں جھلک رہا تھا۔ وہ باجوڑ سے اپنے بیٹے شہسوار کی عیادت کے لیے آئے تھے، جسے مولانا خانزیب پر قاتلانہ حملے میں پانچ گولیاں لگی تھیں۔
صرف 21 سال کا نوجوان، لیکن باپ کا حوصلہ ناقابلِ یقین، جیسے درد کی چٹان ہو۔ پوچھا کہ بیٹا کیسا ہے، بولے: "شہسوار ان شاءاللہ ٹھیک ہو جائے گا، لیکن میرا بھائی اب واپس نہیں آئے گا!” اسی روز، شہادت سے پہلے، وہ مولانا کے حجرے میں موجود تھے۔ کسی نے بیٹے کے بارے میں سوال کیا تو بولے: "مجھے اس کا نہیں پتا، نہ ہی رابطہ ہوا ہے… میرا بھائی شہید ہو چکا ہے۔” یہ ایک بھائی کی بے مثال محبت کی عکاسی تھی۔
شیخ جان بادشاہ نے دھیرے لہجے میں بتایا کہ ہم چھ بھائی تھے، ایک پہلے ہی وفات پا چکا تھا۔ "مولانا خانزیب سب سے چھوٹے تھے۔ وہ ہمارے خاندان کی ریڑھ کی ہڈی تھے، دیانتدار، نڈر، جن پر ہم سب نے اعتماد کر رکھا تھا۔ مجھے ان کی حفاظت کی ہمیشہ فکر رہتی تھی۔” روزانہ وظیفے کرتے، ان کی گاڑی کو دم کرتے، چلتے وقت احتیاط برتتے۔ وہ اگرچہ پریشانیوں میں ہوتے مگر کبھی ہمیں کچھ نہ کہتے کہ کہیں ہم پریشان نہ ہو جائیں۔ باجوڑ کے بگڑتے حالات پر وہ چپ چاپ مصروف رہتے۔ بڑے بھائی شیخ جہانزادہ ان کے سیاسی مشیر تھے، اور ان کا ہر فیصلہ انہی کی مشاورت سے ہوتا۔
پھر وہ رات آئی۔ جمعہ تھا، حسبِ روایت پورا خاندان عشاء کے بعد مسجد میں جمع تھا۔ ختم القرآن ہوا، مولانا خانزیب نے درس قرآن دیا، پھر وہ شیخ جہانزادہ کے ساتھ ایک طرف بیٹھ کر حالات پر بات کرنے لگے۔ میں نے تلاوت ختم کی ہی تھی کہ مولانا کی بات سن لی: "آنے والے دن خطرناک ہیں، کوئی بڑا حادثہ ہو سکتا ہے۔” میں چونک گیا۔ ان سے سوال کیا تو انہوں نے بات گول کر دی، مگر میرے دل میں بے چینی بھر گئی۔ میں نے ان سے سخت لہجے میں کہا، "آپ صرف ہمارے نہیں، اب پختون قوم کی امید ہیں۔ اگر آپ کو کچھ ہوا تو یہ پوری قوم کا نقصان ہو گا۔”
خیر، صبح ہوئی، میں مولانا سے پہلے اٹھا اور ان کو اپنی نظروں سے اوجھل نہ ہونے دیا۔ شیخ جان بادشاہ کہتے ہیں کہ دس بجے تھے، انہوں نے ناشتہ کیا اور حجرے کی طرف نکل پڑے۔ کچھ ہی دیر بعد میں بھی ان کے پیچھے آیا۔ مولانا صاحب نے گھر کے ساتھ ایک نئی مارکیٹ کی تعمیر شروع کی تھی، وہ وہاں نکل گئے۔ میں بھی آیا اور ان سے پوچھا، "مولانا صاحب! یہ کیا کر رہے ہو؟” تو جواب دیا، "یہ جگہ بے فائدہ پڑی ہے، میں چاہتا ہوں یہاں ایک مارکیٹ بناؤں۔”
میں نے ہنس کر کہا، "مڑہ مولا! بس کریں، کب تک زندہ رہنا ہے؟” جان بادشاہ کہتے ہیں کہ میں مولانا کو جانے نہیں دینا چاہتا تھا اور اس بات کا اس کو بھی اندازہ تھا کہ میں اسے روکوں گا۔ وہ ایک سائیڈ پر چلا گیا، میں مطمئن تھا کہ مولانا کی گاڑی حجرے میں کھڑی ہے، ایسے تو یہ جائے گے نہیں۔ لیکن جب میں حجرے میں داخل ہوا تو میری پریشانی میں مزید اضافہ ہوا: مولانا صاحب کی گاڑی موجود نہیں تھی! باہر باتوں میں مجھے مصروف کر کے، انہوں نے میرے بیٹے کو بذریعہ میسج پیغام پہنچایا تھا کہ وہ گاڑی لے کر سائیڈ گیٹ سے نکلے، اور اس طرح وہ امن پاسوں کے لیے نکلنے میں کامیاب ہو گئے۔
وہ کہتے ہیں کہ سہ پہر کا وقت تھا، میں مولانا خانزیب کی حفاظت کے لیے وظیفہ کرنے میں مشغول تھا کہ فون آیا اور بتایا گیا کہ "کیا واقعی فائرنگ ہوئی ہے؟” میں نے پوچھا، "کہاں پر؟” تو اس نے فون بند کر دیا۔ میں نے قرآن مجید بند کیا اور گاڑی کی طرف لپکا۔ اس دوران شیخ جہانزادہ صاحب نکلے اور پوچھا، "کہاں جا رہے ہو؟” میں نے جواب دیا، "فائرنگ ہوئی ہے۔” اس نے پوچھا، "کس پر فائرنگ ہوئی ہے؟” میں نے جواب دیا، "مولانا خانزیب پر،” اور روانہ ہوا۔ شیخ جان بادشاہ کہتے ہیں کہ اللہ گواہ ہے، مجھے نہیں پتا تھا کہ فائرنگ مولانا خانزیب پر ہوئی ہے لیکن مجھے ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ کوئی اندر سے مجھے بتا رہا ہے کہ مولانا خانزیب مشکل میں ہیں۔ آدھے راستے میں ہی تھا کہ میرے بھتیجے جواد کا کال آیا اور اس نے یہ قیامت خیز خبر دی کہ "مولانا شہید ہو گئے ہیں۔”
مولانا خانزیب سے ایک بڑے بھائی ہیں، ان کا نام شیخ گل بادشاہ ہے اور وہ پشاور میں رہتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ شہادت سے ایک روز پہلے مولانا پشاور آئے تھے۔ میری دکان میں بیٹھے تھے، قہوے کے تین سے چار پیالی پی لی، ساتھ ہی ساتھ ایک تحریر بھی لکھ ڈالی۔ جب وہ واپس باجوڑ کے لیے نکل رہے تھے تو میں نے ایک سائیڈ پر کیا، پھر اس سے پوچھا، "آپ نے رومال اور ٹوپی کیوں بدل لی ہے؟” تو جواب دیا، "حالات بہت خراب ہیں، میں نے اپنی گاڑی بھی بدل دی ہے، میں نہیں چاہتا کوئی اجنبی مجھے پہچانے۔”
گل بادشاہ کہتے ہیں کہ میں نے اسے مشورہ دیا کہ وہ باجوڑ امن پاسوں یعنی 13 جولائی تک پشاور میں ہی قیام کریں، اور اس کے بعد پاسوں کے لیے یہیں سے میری گاڑی میں چلے جانا۔ لیکن انہوں نے یہ کہتے ہوئے انکار کیا کہ "نہیں، میں یہ دو تین دن مہم چلاؤں گا تاکہ یہ احتجاج کامیاب ہو جائے۔” پھر اس کو یہ بھی مشورہ دیا گیا کہ ہم انہیں متحدہ عرب امارات بھیج دیتے ہیں، آپ وہاں اسٹڈی سرکلز کیا کریں، ویڈیوز کے ذریعے اپنا کام بھی جاری رکھیں۔ لیکن مولانا صاحب نے کہا، "نہیں، مجھے کہیں جانا نہیں ہے، میرا مرنا جینا اپنی قوم کے ساتھ ہے۔” اور اس کے بعد وہ روانہ ہو گئے۔
مولانا صاحب اس قوم کی ایک توانا آواز تھے۔ میں نے مولانا صاحب کو بہت قریب سے دیکھا ہے۔ وہ اس قوم سے جنون کی حد تک محبت کرتے تھے۔ ان کا ارمان تھا کہ پختون قوم متحد ہو جائے، وسائل پر ان کا اختیار ہو، ہر طرف امن اور خوشحالی ہو، اور اس کے لیے وہ دن رات ایک کر کے کام کرتے تھے۔ لیکن ظالموں نے انہیں بڑی بے دردی سے شہید کیا۔ اللہ مولانا صاحب کو جنت الفردوس اور ان کے خاندان کو صبر جمیل نصیب فرمائے۔ آمین۔