ہمارا معاشرہ ہمیشہ بیٹوں کو معاف کرتا ہے، بیٹیاں بھلا دی جاتی ہیں!!!

نور ضیاء
جب آپ زندہ لاش بن جاتے ہیں تو کوئی آپ کی موجودگی محسوس نہیں کرتا، لیکن جیسے ہی آپ مر جاتے ہیں، دنیا اچانک آپ کو یاد کرنے لگتی ہے۔ وہ بھی بس چند لائکس، تبصرے اور وائرل شہرت کے لیے۔ یہی ہے وہ حقیقت جس میں ہم جی رہے ہیں۔
آج چند دن بعد میں نے فیس بک کھولی تو ایک ایسی خبر نے مجھے بےچین اور دل شکستہ کر دیا۔ میری پوری نیوز فیڈ پاکستانی اداکارہ حمیرا اصغر کی پوسٹس، ریلز اور کہانیوں سے بھری ہوئی تھی۔ تجسس بڑھا، تو گوگل کھولا، یوٹیوب دیکھا، انسٹاگرام پر اسکرول کیا، اور ٹوئٹر بھی چیک کیا۔ رفتہ رفتہ ایک دردناک حقیقت کھل کر سامنے آنے لگی کہ حمیرا اصغر 2024 میں خاموشی سے اس دنیا سے چلی گئیں۔ اور سب سے چونکا دینے والی بات؟ تقریباً کسی کو ان کی موت کی خبر ہی نہ تھی۔
وہ کافی عرصے سے سکرین سے غائب تھیں۔ عوامی نظروں سے دور ہو چکی تھیں۔ لیکن نہ کسی نے پوچھا، نہ تلاش کیا، نہ یہ سوچا کہ وہ کہاں گئیں۔ نہ خاندان، نہ دوست، نہ ان کی اپنی انڈسٹری کے لوگ، جو کبھی ان کے ساتھ چمکتے تھے!
یہ سب دیکھ کر دل سوال کرتا ہے: آخر ہم کس معاشرے میں جی رہے ہیں؟ ایک ایسا معاشرہ جہاں ایک شخص مکمل خاموشی میں گم ہو جائے، اور کوئی محسوس تک نہ کرے؟ ایک مشہور شخصیت، جو کبھی لاکھوں دلوں کی دھڑکن تھی، اچانک نظر انداز کیسے ہو گئی؟
یہ محض پریشان کن نہیں، بلکہ دل توڑ دینے والا واقعہ ہے۔ اور اس سے بھی زیادہ تکلیف دہ وہ لمحہ تھا جب سنا کہ ان کے اپنے والد نے ان کی لاش لینے سے انکار کر دیا۔ ان کے الفاظ ناقابلِ فراموش تھے کہ "ہم نے اس سے دو سال پہلے لاتعلقی اختیار کر لی تھی۔ لاش کے ساتھ جو کرنا ہے کر لو۔”
دل دہل گیا۔ اب خود سے ایمانداری سے سوال کیجیے کہ اگر یہی کسی بیٹے کے ساتھ ہوتا؟ اگر نافرمان بیٹا، گناہگار بیٹا، کوئی ایسا لڑکا ہوتا جس نے سب کچھ غلط کیا ہو؟ کیا تب بھی والد یوں ہی لاش کو ٹھکرا دیتا؟ نہیں، شاید کبھی نہیں۔ معاشرہ ہمیشہ بیٹوں کو معاف کرتا ہے۔ بیٹیاں بھلا دی جاتی ہیں۔
اب جب حمیرا دنیا میں نہیں رہیں، تو ان کے نام نہاد سوشل سرکل، مداح اور آن لائن پرستار افسوس میں ڈوبے نظر آتے ہیں۔ آنکھوں میں آنسو، ٹریبیوٹ پوسٹس، ویڈیوز، اور اداس کہانیاں۔ لیکن جب وہ زندہ تھیں، تنہا تھیں، پردے سے باہر تھیں تو تب کہاں تھے یہ سب لوگ؟ تب کیوں نہیں کسی نے فون کیا؟ ان کی خیریت پوچھی؟
کیوں ہم کسی کے دکھ کو صرف تب یاد کرتے ہیں جب وہ موت بن جائے؟
سوال بہت سے ہیں… مگر جواب کوئی نہیں۔
ہم ایک ایسے دور میں جی رہے ہیں جسے "پوسٹ ماڈرن” کہا جاتا ہے۔ جدید۔ ڈیجیٹل۔ مربوط۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ ہم پہلے سے کہیں زیادہ منقطع ہو چکے ہیں۔
ہم ایک زومبی معاشرہ بن چکے ہیں جو کہ بے روح اور بے حس۔ ہم ایک دوسرے کو خاموشی سے کھا جاتے ہیں۔ ذہنی طور پر، جذباتی طور پر، روحانی طور پر، اور جسمانی طور پر بھی۔ اور یہ سب ہم اس احساس کے بغیر کرتے ہیں کہ ہم ایک دوسرے کو کتنا نقصان پہنچا رہے ہیں۔
حمیرا اصغر کی کہانی صرف ان کی ذاتی کہانی نہیں ہے۔ یہ ایک آئینہ ہے۔ یہ ہمیں آج کے انسان کی تنہائی، خاموشی، اور جذباتی نظراندازی دکھاتی ہے۔ ہمیں اب اپنے رویوں، رشتوں، اور ذمہ داریوں پر ازسرنو غور کرنا ہوگا، اس سے پہلے کہ بہت دیر ہو جائے۔