عوام کی آوازکالم

سفیر امن ، شہید ملت مولانا خان زیب کون تھے ؟

محمد بلال یاسر

باجوڑ میں امن مارچ (پاسون) کی مہم کے دوران نامعلوم افراد کی فائرنگ سے مولانا خان زیب سمیت دو افراد جانبحق جبکہ تین دیگر زخمی ہو گئے۔ واقعہ تحصیل خار کے علاقے شنڈئی موڑ پر اس وقت پیش آیا جب مولانا خان زیب 13 جولائی کو ہونے والے امن پاسون کے لیے کمپین میں مصروف تھے۔

ابتدائی زندگی:

مولانا خان زیب باجوڑ کی تحصیل ناواگئی میں پیدا ہوئے، میٹرک تک تعلیم گورنمنٹ ہائی سکول ناواگئی سے حاصل کرنے کے بعد دینی علوم کے درس نظامی سے 1999 میں فراغت حاصل کی۔ مولانا خان زیب باجوڑ میں آباد ترکلانی قبیلہ کی ذیلی شاخ سالارزئی شیخان سے تعلق رکھتے تھے۔ ان کے آباؤ اجداد زمانہ قدیم سے چارمنگ اور ناواگئی میں رہائش پذیر رہے ہیں جبکہ پشاور میں متھرا کے قریب ڈھائی سو گھرانوں پر مشتمل ان کی برادری کا ایک پورا گاؤں شیخ کلی کے نام سے موجود ہے۔

سیاسی زندگی :

مولانا خان زیب اگر چہ ایک عالم دین تھے مگر اس کے باوجود وہ سیکولر جماعت عوامی نیشنل پارٹی کے رکن اور رہنما تھے اس کی وجہ یہ تھی کہ انہیں گھر ہی میں عوامی نیشنل پارٹی کی تنظیم عہدے اور خاندانی تعلق ملا ۔ مولانا خان زیب عوامی نیشنل پارٹی کے مرکزی رہنما اور سابقہ امیدوار شیخ جہانزادہ کے چھوٹے بھائی تھے۔

انہوں نے پہلی بار گزشتہ سال جنرل الیکشن میں عوامی نیشنل پارٹی کے ٹکٹ پر حلقہ این اے 8 باجوڑ سے الیکشن لڑا اور 12069 ووٹ حاصل کئے۔ انہیں بے پناہ مقبولیت حاصل تھی ۔

علمی خدمات:

مولانا خان زیب ملک کے معروف عالم دین شیخ الحدیث مولانا حسن جان کے شاگرد رشید تھے۔ مگر اس کے باوجود انہوں نے مختلف شعبوں میں بہترین خدمات سرانجام دی ۔

باجوڑ ایک تاریخی علاقہ رہا ہے مگر بدقسمتی سے باجوڑ کی تاریخ کے حوالے سے ماضی میں بہت زیادہ کمی تھی، مولانا خان زیب نے پشتو زبان میں کتاب تحریر کر کے پورے علاقے کے لوگوں اور بالخصوص نوجوانوں کو اپنی تاریخ کے حوالے سے ایک ایسا تحفہ دیا ہے جو ہمیشہ ہمیشہ یاد رہے گا۔

مولانا خان زیب باجوڑ کے نوجوانوں میں انتہائی مقبول شخصیت ہیں، اپنے سوشل اکاؤنٹ پر علمی تحریروں کی شکل میں متحرک رہتے ہیں جبکہ روزنامہ شہباز ، ٹرائبل نیوز نیٹ ورک اور پختون میگزین کے لیے بھی لکھتے رہے ہیں۔

مولانا خان زیب کی زندگی کو درپیش خطرات:

آپریشن شیردل کے دوران مولانا خان زیب کے گھر پر گولے گرے جس میں ان کے گھر کی تین خواتین شدید زخمی ہوئیں۔ اس خوف و ہراس کے ماحول میں بھی وہ علاقے سے نہیں نکلے۔

اس کے علاوہ مولانا خان زیب نے عسکریت پسندی کے دوران ناوگئی میں معروف شاعر اسلام آرمانی جس کا جنازہ پڑھانے پر پابندی شدت پسندوں کے جانب سے عائد کی گئی تھی، کے جنازہ پڑھانے کے بعد نہایت خطرات کا سامنا کرنا پڑا۔ اس حوالے سے انہوں نے لکھا تھا کہ مجھے پتہ تھا کہ اس جنازہ کے پڑھانے کے نتائج کیا ہوں گے مگر اپنے ایمان اور پشتو کی خاطر میں نے اسلام ارمانی کی جنازہ پڑھائی اور پھر مجھے کن مشکلات سے گزرنا پڑا وہ ایک الگ داستان ہے۔

اس کے علاوہ مولانا خان زیب کے گھر پر شدت پسندوں کی جانب سے دو بار بڑے تباہ کن میزائل داغے گئے جن میں سے ایک واقعہ کے بارے میں مولانا نے ایک تقریر میں بتایا تھا کہ میزائل مجھ سے دس فٹ اوپر درخت پر لگ کر پھٹ گیا اور ایک ہفتے تک میرے کان بند تھے۔ آخر تک مولانا خان زیب اور ان کے گھر والوں کو مشکل حالات کا سامنا ہے مگر ان تمام تر مشکلات کے باوجود وہ عزم و ہمت اور استقلال کے ساتھ ان حالات کا مقابلہ کرتے رہے۔

شہادت:

عینی شاہدین کے مطابق مولانا خان زیب دوپہر تین بجے کے قریب 13 جولائی کو منعقد ہونے والے امن پاسون کے کمپین میں مصروف تھے کہ شنڈئی موڑ کے مقام پر نامعلوم حملہ آوروں نے اچانک گاڑی پر اندھا دھند فائرنگ شروع کر دی، جس کے نتیجے میں مولانا خان زیب اور ایک ساتھی موقع پر شہید ہو گئے جبکہ تین افراد شدید زخمی ہوئے۔

حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا۔

Show More

Muhammad Bilal Yasir

محمد بلال یاسر پچھلے 8 سال سے قبائلی ضلع باجوڑ سے ٹی این این کیلئے ہفتہ وار کالم اور سٹوریز لکھتے ہیں۔ اس کے ساتھ وہ مختلف ملکی و بین الاقوامی ویب سائٹس کے لیے بھی لکھتے ہیں۔

متعلقہ پوسٹس

Back to top button