عوام کی آوازکالم

ماحولیاتی بحران یا انسانی لاپرواہی؟ سوات کے سیاحوں کی ہلاکتیں کئی سوال چھوڑ گئیں

سید نذیر

سانحہ سوات، جس میں 18 سیاح دریا کی طغیانی میں ڈوب گئے، یہ ایک ایسا لمحہ ہے جو پورے ملک کو سوچنے پر مجبور کر دینا چاہیئے۔ پنجاب سے تعلق رکھنے والے ایک ہی خاندان کے 11 افراد کی لاشیں نکالی جا چکی ہیں، تین کو زندہ بچایا گیا ہے، جبکہ باقی کی تلاش جاری ہے۔ خیبر پختونخوا حکومت نے فوری طور پر کچھ افسران کو معطل کر دیا ہے جن میں اسسٹنٹ کمشنرز، اے ڈی سی ریلیف، اور مقامی ریسکیو 1122 کا انچارج شامل ہے۔ ایک انکوائری کا حکم بھی دیا گیا ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ کیا یہ اقدامات اصلاحات کی طرف قدم ہیں یا صرف وقتی دکھاوا؟

سیلاب حیران کن نہیں رہے 

ہم جانتے ہیں کہ ہر سال پاکستان کے شمالی علاقوں، جنوبی خیبرپختونخوا، بلوچستان اور پنجاب کے کچھ حصوں میں سیلاب آتے ہیں۔ ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ مون سون کی بارشیں، گلیشیئرز کا پگھلنا اور درجہ حرارت میں اضافہ اس کا سبب بنتے ہیں۔ مگر پھر بھی ہر سال ہم ایسے ہی حادثوں کا شکار ہوتے ہیں۔ وجہ صرف ایک ہے کہ ہم نے اس مسئلے کو سنجیدہ نہیں لیا۔ ہمارے ہاں نہ چھوٹے ڈیمز ہیں، نہ پانی کے بہاؤ کو قابو میں رکھنے کے لیے چینلز، اور نہ ہی کمیونٹی سطح پر بروقت انتباہی نظام موجود ہے۔

دوسری طرف عوام بھی خطرے کو سمجھنے کی بجائے سیلابی دریا کو ایک تفریحی مقام سمجھتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر حادثے والے دن کی ویڈیوز میں لوگ دریا کے بالکل کنارے کھڑے دکھائی دیے، جیسے کچھ ہونے والا ہی نہیں۔

کیا صرف افسران کی معطلی کافی ہیں؟

اگرچہ معطلی کا فیصلہ فوری ردِعمل کے طور پر درست لگتا ہے، مگر اصل سوال یہ ہے کہ کیا مینگورہ جیسے معروف سیاحتی مقام پر کوئی ہنگامی پلان تھا؟ کیا ہوٹل مالکان اور مقامی افراد کو ممکنہ خطرے سے آگاہ کیا گیا؟ کیا مساجد، ریڈیو یا سوشل میڈیا کے ذریعے کوئی وارننگ دی گئی؟ ان سب سوالوں کا جواب بدقسمتی سے ’نہیں‘ ہے۔

فلیش فلڈ، یعنی اچانک آنے والے سیلاب، نہایت تیز اور خطرناک ہوتے ہیں۔ ان سے نمٹنے کے لیے صرف کچھ ریت کی بوریاں کافی نہیں ہوتیں، بلکہ مکمل منصوبہ بندی، انجینئرنگ اور عوامی شعور کی ضرورت ہوتی ہے۔

ماحولیاتی تبدیلی حقیقت ہے، افسانہ نہیں

پاکستان دنیا میں کاربن گیسوں کے اخراج میں نہ ہونے کے برابر حصہ رکھتا ہے، لیکن اثرات ہم پر سب سے زیادہ پڑ رہے ہیں۔ گلیشیئرز تیزی سے پگھل رہے ہیں، بارشوں کا نظام بدل چکا ہے اور گرمی کی شدت بڑھ چکی ہے۔ سوات کا یہ سانحہ ماحولیاتی تبدیلی کے انہی اثرات کی ایک بھیانک مثال ہے۔ مگر ہم ہر سانحے کو الگ واقعہ سمجھ کر بھول جاتے ہیں، اور کوئی طویل المدت حکمت عملی نہیں بناتے۔

ہمیں اب کیا کرنا چاہیے؟

حکومت اور عوام دونوں کو ماحولیاتی تحفظ اور تیاری کو اولین ترجیح بنانا ہوگا۔ اس کے لیے:

  • تمام خطرناک علاقوں میں فوری الرٹ سسٹم نصب کئے جائیں۔
  • بارش کے پانی کو محفوظ رکھنے کے لیے چھوٹے ڈیمز اور بہاؤ کے راستے بنائے جائیں۔
  • عوامی آگاہی کے لیے ٹی وی، ریڈیو، اور سوشل میڈیا پر مہمات چلائی جائیں۔
  • سیاحتی مقامات پر خاص طور پر دریا کے کناروں پر حفاظتی اقدامات کیے جائیں۔
  • سکولوں میں ماحولیاتی تعلیم کو لازمی نصاب کا حصہ بنایا جائے۔

یہ سب چیزیں شوق نہیں، ضرورت ہیں۔

یہ ایک حادثہ نہیں، ایک وارننگ ہے

سوات کا یہ واقعہ صرف دریا میں ڈوبنے کا نہیں، نظام کی نااہلی اور ہماری اجتماعی غفلت کا نتیجہ ہے۔ یہ اموات پانی کی نہیں، ہماری بے حسی کی وجہ سے ہوئیں ہیں۔ اگر ہم نے اب بھی کچھ نہ سیکھا تو اگلا حادثہ شاید اور بھی بڑا ہو۔

آئیں، ہم اس واقعے کو ایک عام خبر سمجھ کر نظر انداز نہ کریں، بلکہ اسے ایک قومی لمح فکریہ سمجھے۔ ان متاثرین کے لیے دعا اور ان کی یاد کو عمل میں بدلنا ہمارا فرض ہے۔ کیونکہ یہ وقت صرف افسوس کرنے کا نہیں، سدھار کا ہے۔

Show More
Back to top button