بلور ہاؤس کی خاموشی: ایک تاریخ، ایک داستان، ایک جدائی

شمیم شاہد
چھ دہائیوں سے زائد عرصے تک خیبر پختونخوا، پاکستان اور پورے خطے کی سیاست میں نمایاں کردار ادا کرنے والا بلور ہاؤس آخرکار خالی ہو گیا۔ اس سیاسی، سماجی اور فلاحی مرکز کے بانی حاجی غلام احمد بلور اپنے اکلوتے پوتے عظیم شبیر بلور اور بیوہ بہو کے ہمراہ اسلام آباد منتقل ہو گئے۔
اسلام آباد روانگی سے پہلے حاجی غلام احمد بلور باچا خان مرکز گئے، جہاں انہوں نے اپنے مرحوم قائدین، فخر افغان باچا خان اور خان عبدالولی خان کی ارواح سے اجازت لی۔ پھر وہ اُس شہر سے نہایت دل شکستگی کے ساتھ رخصت ہوئے، جو کبھی ان کی زندگی کا مرکز اور جہاں کے باسیوں کی دھڑکن تھے۔ وہ اس شہر کو چھوڑ گئے جہاں وہ ہر گلی، کوچے اور فرد سے آشنا تھے، اور جہاں کے غم و خوشی میں ہمیشہ شریک رہے۔
یہ وہی پشاور ہے جس کی مٹی میں ان کے پیارے بیٹے شبیر احمد بلور، بھائی بشیر احمد بلور، مرحوم الیاس احمد بلور، اور خاندان کے وفادار شہدا جیسے حاجی حمد اللہ، نور محمد خان، اور حاجی باجوڑی آسودہ خاک ہیں۔ ہزاروں غریب افراد جو ان کی سخاوت سے مستفید ہوتے رہے، آج ایک خلا محسوس کر رہے ہیں۔
زندگی میں نشیب و فراز آتے رہتے ہیں، لیکن حاجی صاحب نے جو صدمات جھیلے، وہ کم ہی لوگوں کے حصے میں آتے ہیں۔ اپنے بیٹے، بھائی اور بھتیجے کی شہادتوں کے بعد بھی جس حوصلے سے انہوں نے صبر و استقلال کا مظاہرہ کیا، وہ غیرمعمولی ہے۔
بلور ہاؤس محض ایک خاندان کی حویلی نہیں تھی بلکہ وہ مقام تھا جہاں نہ صرف پختونخوا بلکہ ملک بھر کے بڑے سیاسی فیصلے ہوتے تھے۔ یہاں نواب خیر بخش مری، میر غوث بخش بزنجو، سردار عطاء اللہ مینگل، شہزادہ عبدالکریم، شہید اکبر بگٹی، غلام مصطفی جتوئی، سردار شیر باز مزاری، مرحوم حاکم زرداری، فاضل راھو، رسول بخش پلیجو، شوکت علی خان اور چوہدری شجاعت جیسے رہنما بھی آتے رہے۔
ان کی زندگی کے نشیب و فراز بڑی شدت کے حامل تھے: انہوں نے اکلوتے بیٹے شبیر کی جدائی، بھائی شہید بشیر اور بھتیجے بیرسٹر ہارون کی شہادتوں کے صبر کا مظاہرہ کیا۔ ستر کی دہائی سے یہ خاندان پارلیمان، صنعت، حرفت اور تجارت کے ایوانوں میں نمایاں رہا۔
شہید بے نظیر بھٹو، نصرت بھٹو، میاں نواز شریف اور شہباز شریف، حامد کرزئی، ڈاکٹر اشرف غنی، اور افغانستان کے کئی سیاسی و مذہبی قائدین نے بھی بلور ہاؤس کی میزبانی قبول کی۔ خان لالا کی وفات پر افغانستان سے آنے والا وفد فاتحہ خوانی کے لیے بلور ہاؤس آیا۔ شہید نجیب اللہ کی کابینہ کے اراکین نے یہاں قیام کیا۔
پشاور اور اس کے عوام کے لیے بلور خاندان کی قربانیاں ناقابلِ فراموش ہیں۔ شبیر احمد بلور کی خودکش حملے میں شہادت ہو یا ہارون بلور کی جوانمردی، ہر فرد نے پارٹی اور شہر کے لیے اپنی جان قربان کی۔ حاجی غلام احمد بلور ان تمام صدمات کے باوجود پارٹی اور عوام کے ساتھ جُڑے رہے۔
تاہم 2018 اور 2024 کے انتخابات کے بعد حاجی صاحب شدید مایوس ہوئے۔ پشاور کے جن حلقوں سے بلور خاندان کی کئی دہائیوں پر مشتمل نمائندگی تھی، وہاں غیر معروف امیدواروں کو کامیاب کروایا گیا جن کے بارے میں عوام خود لاعلم تھے۔ آصف خان اور شوکت علی جیسے نمائندگان کے انتخاب نے حاجی بلور کو اس حد تک افسردہ کر دیا کہ وہ شہر سے ہجرت پر مجبور ہو گئے۔
اس کے ساتھ ساتھ، معاشی حالات نے بھی بلور خاندان کو متاثر کیا۔ جو خاندان کبھی پشاور اور لندن میں درجنوں جائیدادوں اور کاروبار کا مالک تھا، وہ اب محدود اثاثہ جات پر آ گیا ہے۔ کئی صنعتی و تجارتی ادارے بند ہو چکے ہیں۔ اب بلور خاندان چند پٹرول پمپس اور محدود کاروبار تک محدود ہو چکا ہے۔
پارٹی کے اندر بھی حاجی صاحب کی ناراضی کئی مواقع پر ظاہر ہوئی۔ وہ اس توجہ اور عزت کے طلبگار رہے جو انہیں خان عبدالولی خان جیسے قائدین سے ملتی تھی۔ 1990 کے انتخابات کے بعد ولی خان نے صحافیوں کو یاد دلایا تھا کہ بلور خاندان کے چاروں بھائی جیل میں رہے، اس لیے عہدے ان کا حق ہیں۔ یہی بنیاد تھی کہ الیاس بلور کو سینیٹ کے لیے نامزد کیا گیا۔
اب پشاور کے ساتھ کیا ہو رہا ہے؟ یہ بھی سب کے سامنے ہے ۔ دوسری طرف اگر دیکھا جائے تو بلور خاندان سیاست میں آنے سے قبل مالی اور معاشی طور پر کافی مستحکم تھا مگر اب نہیں جبکہ 2013 سے نہ صرف پشاور بلکہ خیبر پختونخوا کے طول و عرض سے پاکستان تحریک انصاف کے منتخب ممبران اسمبلی لکھ پتیوں کے بجائے اب ارب پتی نہیں بلکہ کھرب پتی بن گئے ہیں اور ہو رہے ہیں۔ حاجی بلور نے بلور ہاؤس نہیں پشاور کو خالی کر دیا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اس خالی پشاور کے باسی مستقبل کے لئے کسی راہ گزر کو نمائندگی کے لئے منتخب کرینگے یا حاجی غلام احمد بلور کے طرح کسی مخلص خواہاں اور خیرخواہ کو ۔
کوئی مانے یا نہ مانے، بلور خاندان نے پشاور کی نمائندگی کا حق ادا کیا ہے۔ اب پشاور کے لوگ کس کو اپنا نمائندہ منتخب کرتے ہیں، یہ ان کے شعور کا امتحان ہے۔ کیا وہ بلور خاندان جیسے مخلص اور خدمت گزار نمائندے کو یاد رکھیں گے، یا پھر وقتی وابستگیوں کی بنیاد پر خاموش اور غیر شناسا چہروں کو ترجیح دیں گے؟
بلور ہاؤس نہیں، دراصل پشاور خالی ہوا ہے۔