ماحولیاتی تحفظ کے بغیر معدنی ترقی؟ مائینز اینڈ منرل ایکٹ پر تحفظات بڑھنے لگے

جاوید خان مہمند
خیبر پختونخوا مائینز اینڈ منرل ایکٹ 2025 کے حوالے سے پورے ملک میں سیاسی ہلچل جاری ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کی صوبائی حکومت نے اس ایکٹ کو کیبنٹ سے منظور کروا لیا ہے اور اب یہ بل خیبرپختونخوا اسمبلی میں پیش کیا گیا ہے، جہاں بلوچستان کی طرز پر اس کے جلد پاس ہونے کے امکانات ظاہر کیے جا رہے ہیں۔ بل پر عام عوام، سیاسی جماعتوں اور یہاں تک کہ پی ٹی آئی کے اپنے ارکانِ اسمبلی نے بھی تحفظات ظاہر کیے ہیں اور اسے صوبائی خودمختاری و اٹھارویں ترمیم کے منافی قرار دیا ہے۔
میڈیا میں اس بل کے مختلف پہلوؤں پر بات ہو چکی ہے، تاہم ماحولیاتی تجزیے کی کمی واضح ہے، حالانکہ خیبرپختونخوا موسمیاتی تبدیلی سے سب سے زیادہ متاثر صوبہ ہے۔ لہٰذا معدنیات کی تلاش اور نکالنے کے عمل میں ماحولیاتی تحفظ کو نظرانداز کرنا سنگین غلطی ہوگی۔ اگرچہ اس ایکٹ میں ماحولیاتی تحفظ سے متعلق اقدامات کا ذکر ہے، مگر ان پر عملدرآمد کی صورت حال ابہام کا شکار ہے۔
سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ ایکٹ کے مطابق خیبر پختونخوا انوائرمنٹل پروٹیکشن ایجنسی (EPA) کی منظوری کے بغیر کوئی بھی شخص یا کمپنی مائیننگ کا لائسنس حاصل نہیں کر سکتی۔ حکومت چار اقسام کے لائسنس، دو لیز گرانٹس اور دو پرمٹ جاری کرے گی، جن کے لیے ماحولیاتی منیجمنٹ پلان جمع کروانا لازم ہوگا۔ یہ پلان منظور ہونے کے بعد ای پی اے این او سی جاری کرے گی، جس کے بغیر کام کی اجازت نہیں ہوگی۔
اس ایکٹ کے تحت لائسنس ہولڈرز کو سالانہ ماحولیاتی رپورٹ جمع کرانی ہوگی، جو 2014 کے انوائرمنٹل پروٹیکشن ایکٹ سے متصادم نہ ہو۔ صوبائی لائسنس اتھارٹی اور ضلعی لائزان کمیٹی میں ای پی اے کی شمولیت بھی لازم قرار دی گئی ہے۔
دوسری اہم شق کے مطابق معدنیات کی تلاش شروع کرنے سے قبل ٹیلنگ ڈیم (Tailing Dam) کی موجودگی ضروری ہوگی تاکہ نکالے گئے خام مال (Leftover Material) یا ویسٹ کو ٹھکانے لگانے کا انتظام ہو سکے اور مقامی آبادی یا ماحول کو نقصان نہ پہنچے۔ ان ڈیمز کی مینجمنٹ اور مانیٹرنگ ای پی اے کی ذمہ داری ہوگی۔
ایکٹ میں معدنیات کو 10 مختلف گروپوں میں تقسیم کیا گیا ہے، جن میں جیم اسٹون، کنسٹرکشن، میٹل، انرجی، سٹریٹجک اور نایاب زمینی معدنیات شامل ہیں۔ تاہم بڑی سطح پر مائننگ کی صورت میں ای پی اے کی ضلعی سطح پر موجودگی لازم ہے تاکہ مؤثر جانچ پڑتال کی جا سکے۔ موجودہ صورتحال میں قبائلی اضلاع میں ای پی اے کا کوئی دفتر موجود نہیں، صرف ضلع خیبر میں معمولی سطح پر ادارہ کام کرتا ہے۔
تاہم یہ بات غور طلب ہے کہ مزکورہ ایکٹ کے مطابق اگر صوبائی حکومت کسی کو کو قبائلی اضلاع میں بڑے پیمانے مائننگ کی اجازت دیتی ہے جو کہ ایکٹ کے مطابق Larger-Scale Mining کی کیٹگری میں آتی ہے تو اس کیلئے ای پی اے کا اس ضلع میں ہونا ضروری ہوگا تاکہ منیجمنٹ پلان کی جانچ پڑتال کی جاسکے اور Tailing Dam سے متعلق انتظامات کو دیکھا جاسکے۔
مزید برآں، خیبرپختونخوا میں 2014 کے انوائرمینٹل پروٹیکشن ایکٹ کے رولز آف بزنس نہ ہونے کی وجہ سے بھی عملدرآمد ممکن نہیں۔ صوبائی اسمبلی نے حال ہی میں اس مسئلے کے حل کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی ہے۔ ای پی اے کا دائرہ کار ابھی صرف ڈویژن سطح تک محدود ہے اور قبائلی اضلاع میں دفاتر کے قیام کا منصوبہ گزشتہ دورِ حکومت میں شامل تھا، مگر موجودہ بجٹ سے اسے خارج کر دیا گیا ہے۔
کلائمیٹ چینج پالیسی 2022 کے مطابق خیبرپختونخوا پاکستان کے سب سے زیادہ متاثرہ صوبوں میں شامل ہے۔ 2017 میں پہلی پالیسی بنانے کے بعد 2022 میں اس میں فاٹا انضمام کے بعد ترامیم اور ایکشن پلان شامل کیا گیا۔ قبائلی اضلاع میں ای پی اے دفاتر کے قیام کا مقصد موسمیاتی اثرات سے بچاؤ اور تخفیف کے اقدامات کو عملی جامہ پہنانا تھا۔
صوبے کے ماحولیاتی پروفائل کے مطابق انضمام سے قبل خیبرپختونخوا کا ماحولیاتی نظام چار حصوں پر مشتمل تھا، تاہم فاٹا کے انضمام کے بعد اس کی تعداد بڑھ کر نو ہو چکی ہے۔ قبائلی اضلاع میں انوائرمینٹل پروفائلنگ کا کام تاحال مکمل نہیں ہو سکا، جس میں مزید وقت لگے گا۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ صوبائی حکومت یہ بل اسمبلی سے منظور کرواتی ہے یا نہیں۔ اگر بل منظور ہو جاتا ہے اور لائسنس جاری ہوتے ہیں، تو ای پی اے ماحولیاتی تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے کس حد تک مؤثر کردار ادا کرے گی، یہ ایک بڑا سوال ہے۔