عوام کی آوازکالم

پشتون قومی جرگہ، تصویر کا دوسرا رخ

ساجد انور وردگ

مجھے لگا تھا کہ جرگے کا پہلا نکتہ یہ ہو گا کہ جس قبیلے سے کوئی دہشتگردی کرے گا، اس کے اور اسکے پوری خاندان کے خلاف جرگہ ایکشن لے گا۔ مجھے لگا کہ جرگہ فیصلہ کرے گا کہ سابقہ فاٹا سے کوئی بھی قبائیلی منشیات کی اسملنگ کرتے ہوئے پایا گیا، تو قبائیلی روایات کے مطابق اسکا گھر نظر آتش کیا جائے گا۔ میں مطالبات میں دیکھ رہا تھا کہ جرگہ اس بات پر اتفاق کرے گا کہ تمام قبائیل لڑکیوں کی تعلیم پر خصوصی توجہ دیں گے اور ہر باپ بیٹی کو سکول میں داخل کروانے کا پابند ہو گا۔

میری آنکھیں جرگے میں افغانستان کے جھنڈے کو تو دیکھ رہی تھی لیکن کان یہ سننے کے لیے ترس گئے کہ جرگے کا ایک وفد افغانستان جا کر افغان حکومت سے لڑکیوں کو دوبارہ سکول جانے کی اجازت دلوانے کی کوشش کرے گا۔ میں جرگے کے مطالبات میں یہ بھی دیکھ رہا تھا کہ جرگہ اس بات پر زور دے گا کہ سابقہ فاٹا میں اب کوئی ناجائز اور غیرت کے نام پر قتل نہیں ہوں گے لیکن ایسا کچھ نظر نہیں آیا۔

بس ایک ہی کوشش کی گئی کہ ایک ادارے پر سارا کیچڑ اچھالا جائے۔ کسی بھی بڑی تبدیلی یا انقلاب کے لئے ضروری ہے کہ پہلے اپنی غلطیوں کو مان کر انکو درست کیا جائے، پھر دوسرے کو اپنے بات پر قائل کرنا زیادہ آسان ہوتا ہے۔ انکے خلاف ایک لفظ بھی نہیں کیونکہ انکے ناموں کے آگے محسود، وزیر، داوڑ وغیرہ وغیرہ لکھا ہوتا ہے، کیونکہ وہ آپکی قوم میں سے ہیں، اس لئے انکے گناہ معاف۔

سیکیورٹی فورسز اور دہشتگردوں کو ایک ہی کیٹگری میں ڈالنا، سمجھ سے بالاتر ہے۔ جرگے نے سیکیورٹی فورسز کو نکلنے کے لئے وقت تو دے دیا لیکن اس بات کی گارنٹی کون دے گا کہ آئندہ اس خطے سے تعلق رکھنے والے دہشت گردی، اسمگلنگ، اغواء برائے تاوان جیسے سنگین جرم نہیں کریں گے۔ ایسے عوامل کی لمبی چوڑی فہرست ہے جو سابقہ فاٹا سے ہو رہی ہیں اور پوری قوم کی زندگیوں کو عذاب بنا کے رکھا ہوا ہے۔

میں دو چیزوں کے متعلق بات کروں گا، دہشت گردی اور منشیات۔ تحریک طالبان پاکستان 2007 میں بیت اللہ محسود نے بنائی، 2009 میں حکیم اللہ محسود اسکے سربراہ بنے، 2013 میں فضل حیات عرف فضل اللہ نے کمان سنبھالی، آج نور ولی محسود کرسی پر بیٹھا ہے۔

دکھا دے مجھے کوئی جٹ، بٹ، چودھری ان میں سے۔ پاکستان انسٹیٹیوٹ آف کنفلیکٹ اینڈ سیکیورٹی سٹڈیز کے مطابق سال 2023 میں خیبرپختونخوا میں 419 دہشت گردی کے حملے ہوئے، جن میں 306 سیکیورٹی فورسز کے اہلکار اور 222 عام شہری شہید ہوئے۔ ان حملوں میں سے 235 خیبرپختونخوا کے آباد اضلاع میں ہوئے۔ ان اضلاع میں 336 افراد شہید ہوئے۔ 2000 سے لیکر آج تک ہونے والے دہشت گردوں کے حملوں میں 8891 سیکورٹی فورسز اہلکار شہید ہوئے جبکہ 21856 سویلینز نے بھی جام شہادت نوش کیا۔

اگر ان حملہ آوروں کی فہرست کو دیکھا جائے تو زیادہ تر کا تعلق ضم شدہ اضلاع سے تھا۔ ساؤتھ ایشیاء ٹیررزم پورٹل کے مطابق اس وقت خیبرپختونخوا میں 23 دہشت گرد تنظیمیں کاروائیاں کر رہی ہیں۔ یونائیٹڈ نیشنز کے اعداد و شمار کے مطابق اس وقت افغانستان میں پاکستان سے فرار ہونے والے 6000 طالبان یا انکی فیملیز رہائش پذیر ہیں۔

اطلاعات کے مطابق سابقہ فاٹا میں موجود دہشت گرد اپنے اخراجات کی 30-20 فیصد منشیات کے اسملنگ، اغواء برائے تاوان اور بھتہ خوری سے کما رہے ہیں۔ منشیات کے اسمگلروں سے ہر ایک کلو کے حساب سے 5000 روپے وصول کئے جاتے ہیں۔ ٹھیکیداروں سے لیکر این جی اوز تک سے بھتہ لیا جا رہا ہے۔ صرف مہمند میں 400 سے زائد معدنیات اور ماربل کے کارخانے موجود ہے۔

حال ہی میں ایک کارخانے کے مالک نے بھتہ دینے سے انکار کر دیا،تو نہ صرف اسکے گھر کو جلا دیا گیا بلکہ اسکو اپنے نئے گھر میں بھی داخل نہیں ہونے دیا گیا۔ سیکیورٹی فورسز کے لئے تو ان لوگوں کا پہچان کرنا مشکل ہے لیکن قبائیل کے لئے تو نہیں انکو تو پتہ ہے کہ کون یہ سب کر رہا ہے، تو لے انکے خلاف ایکشن۔

دنیا کی سب سے ذیادہ منشیات اس خطے میں تیار کی جاتی ہیں۔ افیون کی پیداوار سب سے ذیادہ افغانستان میں ہوتی ہے، 2017 کے اعداد وشمار کے مطابق افغانستان میں ایک سال میں 328,000 ایکڑ زمین پر 9000 میٹرکس ٹن افیون اگائے گئے۔ اسکی ٪ 40 سپلائی پاکستان میں کی جاتی ہے۔

ضم ہونے سے پہلے سابقہ فاٹا میں بھی افیون کی کاشت کاری عروج پر تھی۔ ضم ہونے کے بعد کاشت کاری ممکن نہیں رہی تو مصنوعی منشیات جیسے آئس کی تیاری ہونی لگی۔ افغانستان سے اسمگل ہونے والی منشیات کو ایک طرف پاکستان میں نوجوانوں کو بیچا جاتا ہے تو دوسری طرف چائنا، ساؤتھ ایشیاء اور میڈل ایسٹ میں بھی پہنچا دیا جاتا ہے۔ ایک طرح سے افغانستان اور پاکستان کے مابین یہ 2640 کلومیٹر کا بارڈر برائیوں کا گڑھ ہے۔

اس وقت خیبرپختونخوا میں منشیات استعمال کرنے والوں کی تعداد ٪10.7 ہے، جو دوسرے صوبوں میں ٪4.3 ہے۔ تیراہ کے چرس کی تو اپنی ایک تاریخ ہے۔ پونچھ پر پاؤں رکھنے سے اچھلنا تو بنتا ہے۔ خیبر پختونخوا سالانہ 150 ملین روپے نشے کے عادی نوجوانوں کو واپس زندگی کی طرف لانے کے لئے لگا رہی ہیں۔ ان سب کا حساب کون دے گا۔ اس صوبے کے نوجوانوں کو نشے کے لت پر لگانے کے لئے کون زمہ دار ہیں۔

ہر جگہ غلطی ریاست کی نہیں ہوتی، کچھ تو انسان اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھے۔ اس بات میں بھی کوئی دوسری رائے نہیں کہ ریاست سے یہ علاقے سنبھالے نہیں گئے لیکن سارا گند بھی ہمارا خود کا پھیلایا ہوا ہے۔ اگر گالیاں دینی ہی ہے تو ہمیں اپنے آباؤ اجداد کو دینی چاہیئے، یہ انکی لالچ اور خود غرضی کے پیدا کردہ حالات ہیں۔ تالی کبھی ایک ہاتھ سے نہیں بجتی۔ کچھ جرگے کو آگے آکر معاملات کو سنبھالنا ہو گا، کچھ سرکار کو، ساری زمہ داری ریاست کے کندھوں پر ڈالنا انصاف نہیں۔

مطالبات میں سی پیک میں حصے، نوجوانوں کے لیے روزگار، انڈسٹریلازشن، تعلیم، صحت جیسے مسائل کی کوئی بات نہیں، بس ایک ہی چیز پر زور ہے کہ نکل جاؤ اور علاقہ دہشتگردوں اور اسمگلروں کے سہارے چھوڑ جاؤ۔ جرگہ پہلے اس علاقے سے ہونے والی کاروائیوں کو رکوانے کی گارنٹی دے پھر ریاست کے کردار پر بات کرے۔ ہاں لاپتہ افراد، قدرتی وسائل جیسے مسائل پر جرگے کے مطالبات جائز ہیں۔

Show More

Sajid Anwar Wardak

ساجد انور وردک پی ایچ ڈی بین الاقوامی تعلقات ہیں۔ اس کے علاوہ کالم نویس، محقق، بین الاقوامی امور اور میڈیا کے ماہر بھی ہیں۔
Back to top button