کیا آئین کی خلاف ورزی پر سزا ہو سکتی ہے؟
مصباح الدین اتمانی
ریاست اور عوام کے درمیان طے پانے والے معاہدے کو آئین کہا جاتا ہے، یہی وہ بنیادی دستاویزات ہیں جو یہ طے کرتی ہے کہ بنیادی ریاستی ستون، مقنّنہ، انتظامیہ، عدلیہ اور ذرائع ابلاغ اپنی اپنی حدود میں رہ کر کیسے نظامِ حکومت چلائیں گے۔ دستور ہی کسی ریاست کے مختلف شعبوں کے لیے حقوق اور فرائض کا تعین کرتا ہے۔
جمہوری ریاستوں میں آئین کو عوام کی رائے سے ہی ترتیب دیا جاتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ آئینی نظام حکومت کو بحرانوں سے نکالتا ہے اور اس کو استحکام بخشتا ہے۔ بلاشبہ پاکستان کا آئین مُلک میں رہنے والے ہر شہری کی جان و مال اور عزّت وآبرو کے تحفّظ کا ضامن ہے، مُلک کا کوئی بھی شہری آئین سے بالا تر نہیں ہوسکتا جو بھی اس سے انحراف کرتا ہے اس کے لیے آئین میں سخت سزا مقرّر ہے۔
اب آپ کے ذہن میں یہ سوال آیا ہوگا کہ یہاں تو ہر حکومت بحران میں ہوتی ہے، نہ شہریوں کی جان و مال محفوط ہے اور نہ ہی یہاں مقتدر قوتیں آئین کا احترام کرتی ہیں، اس سوال کا جواب آئین کی تاریخ پر ایک نظر ڈال کر ڈھونڈتے ہیں۔ پاکستان اگست 1947 میں آزاد ہوا جبکہ پاکستان کا پہلا آئین 1956 میں سکندر مرزا نے نافذ کیا ۔ یعنی کے پاکستان کا شمار دنیا کے ان بدقسمت ترین ممالک میں کیا جاسکتا ہے جہاں 9 سال تک ریاستی امور بغیر کسی دستور کے چلائے گئے۔
1956 کے دستور کو پاکستان کی تاریخی آئینی کامیابی سمجھا گیا اور اِسی لیے سرکاری طور پر فیصلہ کیا گیا کہ آئندہ ہر سال 23 مارچ کا دن،’’ یومِ جمہوریہ‘‘ کے طور پر منایا جائے گا لیکن بدقسمتی سے یہ آئین اپنے وجود کے ٹھیک 2 سال بعد 7 اکتوبر 1958 میں ملک میں مارشل لاء لگنے کے بعد کالعدم قرار دے دیا گیا ۔
1962 میں پاکستان کا دوسرا آئین فیلڈ مارشل ایوب خان نے نافذالعمل کیا چونکہ یہ ایک آمرانہ حکومت تھی، اِس لیے یہ آئین بھی دیرپا ثابت نہ ہوا اور چھے سال بعد ہی 1968ء میں جنرل ایّوب کے اقتدار کے خلاف عوامی تحریک شروع ہوگئی۔ تحریک میں وَن یونٹ کے خاتمے کا مطالبہ بہت شدّت اختیار کر گیا تھا، جو 62ء کے آئین کا بنیادی جزو تھا۔ مُلکی صُورتِ حال بے قابو ہونے لگی، تو ایّوب خان مستعفی ہوگئے اور اگلے آرمی چیف، جنرل یحییٰ خان نے25 مارچ 1969ء کو حکومتی باگ ڈور سنبھال لی۔
جنرل یحییٰ نے ایّوب خان کا آئین معطّل کر کے ایک نیا عبوری آئین نافذ کیا اور 28نومبر1969ء کو قوم سے خطاب کرتے ہوئے اعلان کیا کہ مُلک میں آئندہ عام انتخابات 15اکتوبر 1970ء کو ہوں گے۔ پاکستان کا تیسرا اور متفقہ آئین ذالفقار علی بھٹو کی سربراہی میں 1973 میں بنا جو کہ چند آئینی ترامیم کے ساتھ آج تک نافذ العمل ہے۔ 1973 کے آئین کی خوشی میں ملک بھر میں 2 دن عام تعطیل کا اعلان کیا گیا۔، 31 توپوں کی سلامی پیش کی گئی، اس کے ساتھ ساتھ پورا ہفتہ ” ہفتہ جشن آئین” کے نام پر خصوصی تقریبات منعقد کی گئی۔ 1973 کی آئین کو عوام میں خاصی پزیرائی ملی، اس کو عوامی ملکیت قرار دیا گیا یعنی کہ یہ عوام کا آئین اور عوام ہی اس کی حفاظت کریں گی۔
بعد میں اس دستور کے ساتھ کیا ہوا وہ ملاحظہ کریں۔ 14اگست 1973ء سے آج تک یعنی 51 سال میں آئین پاکستان تین بار معطّل ہوا۔ پہلی مرتبہ آرمی چیف، جنرل ضیا الحق نے 5 جولائی1977 کو معطّل کیا اور 30دسمبر1985 ء کو 8 سال، 6 ماہ بعد کچھ اِس طرح بحال کیا کہ وہ آرمی چیف اور طاقتور صدر کے طور پر برقرار رہے۔ دوسری مرتبہ آرمی چیف، پرویز مشرف نے 12 اکتوبر 1999ء کو آئین معطّل کیا اور پھر یہ اگلے تین سال اور 16دن کے بعد 16نومبر 2002ء کو بحال ہوا۔ تاہم وہ بھی آرمی چیف کے ساتھ، طاقتور صدر کے طور پر بھی برقرار رہے۔ تیسری مرتبہ 3 نومبر2007 ء کو ایک بار پھر آرمی چیف، جنرل پرویز مشرف نے آئین معطّل کیا، لیکن محض ڈیڑھ ماہ بعد 15دسمبر کو بحال کر دیا گیا۔
لیکن اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آئین کی اگر اتنی اہمیت ہے تو اس کو بار بار کیوں معطل کیا گیا اور جنہوں نے معطل کیا کیا ان کو سزائیں دلوائی گئی؟
اگر ہم 1973 کے آئین میں ترامیم کی بات کریں تو اب تک آئین میں 26 ترامیم کی جاچُکی ہیں۔ بیشتر ترامیم محض ایک دن کی قلیل مدّت میں منظور ہوئیں۔ سات ترامیم آئین کے خالق وزیرِ اعظم ذوالفقار علی بھٹّو کے دَور میں ہوئیں۔ میاں نواز شریف تین مرتبہ وزیرِ اعظم رہے اور اُن کے تینوں ادوار میں مجموعی طور پر8 آئینی ترامیم ہوئیں، غیر جماعتی اسمبلی سے منتخب ہونے والے وزیرِ اعظم محمّد خان جونیجو کے دَور میں تین آئینی ترامیم ہوئیں، پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے وزیرِ اعظم یوسف رضا گیلانی کے دَور میں بھی تین آئینی ترامیم ہوئیں، مسلم لیگ نون کے وزیرِ اعظم شاہد خاقان عبّاسی اور عمران خان کے دور میں دو، دو آئینی ترامیم ہوئیں، جب کہ ظفراللہ جمالی کے دَور میں ایک آئینی ترمیم ہوئی۔
دستور ہی کسی ریاست میں حقوق اور ذمہ داریوں کا تعین کرتی ہے لیکن یہاں دستور اور اس دستور کے تحت بننے والے قوانین پر میں آپ اور وہ لوگ کتنا عمل کرتے ہیں جنہوں نے یہ قوانین بنائے ہے جن کا کام ان قوانین پر عمل درامد کرانا ہے، اس کا جواب آپ ہی پر چھوڑ دیتا ہوں۔