کیا آپ کو کسی عوامی ادارے یا اس کی کارکردگی کے حوالے سے معلومات چاہئے؟
مصباح الدین
آپ کو کسی عوامی ادارے یا اس کی کارکردگی کے حوالے سے معلومات چاہئے لیکن وہ مل نہیں رہے تو کیا آپ خاموش بیٹھیں گے؟
نہیں! عوام کے پیسوں سے چلنے والے ہر ادارے کی معلومات تک رسائی آپ کا ائینی اور بنیادی حق ہے جسے پاکستان کے دستور کی شق 19A میں بھی تسلیم کیا گیا ہے۔
اس طرح خیبرپختونخوا میں معلومات تک رسائی کا قانون 20 اکتوبر 2013 کو صوبائی اسمبلی سے پاس کیا گیا تھا جسے 4 نومبر 2013 کو گورنر نے منظور کیا۔
اس قانون کے تحت بھی ہر شہری کو کسی عوامی ادارے کے پاس موجودہ معلومات اور ریکارڈ تک رسائی کا حق دیا گیا ہے۔
معلومات تک رسائی کے قانون کے تحت تمام عوامی اداروں کو اس بات کا پابند کیا گیا ہے کہ وہ عوام کو ان کی مطلوبہ معلومات بروقت مہیا کریں، اس قانون کے تحت آپ کو یہ حق حاصل ہے کہ آپ کسی بھی عوامی ادارے سے پوچھے کہ وہاں ملازمین کی تعداد کتنی ہے، ان کے اخراجات اور بجٹ کیا ہے۔ کسی سڑک، سکول یا تفریحی مقام کی تعمیر پر کتنے پیسے خرچ ہوئے ہیں اور اس کا ٹھیکدار کون تھا۔ یعنی اس قانون کے تحت ہر شہری کو عوامی اہمیت کی حامل تمام معلومات تک رسائی کا مکمل حق دیا گیا ہے۔
مگر اس میں چند معلومات ایسی بھی ہے جس کے حوالے سے شہری نہیں پوچھ سکتے۔ اس کا ذکر ہم اگے چل کر کریں گے۔
پہلے اس قانون کے تحت معلومات تک رسائی کے طریقہ کار کے حوالے سے بات کرتے ہیں۔
ہر وہ ادارہ جو عوام کے ٹیکس سے چلتا ہے خواہ وہ محکمہ تعلیم ہو، محکمہ صحت ہو، محکمہ پولیس ہو، محکمہ سی اینڈ ڈبلیو ہو، ضلعی انتظامیہ کا کوئی سربراہ ہو یا صوبائی حکومت کا کوئی نمائندہ آپ ان سے معلومات لے سکتے ہے۔ اس کے لیے ہر محکمہ میں پی آئی او یعنی پبلک انفارمیشن آفیسر موجود ہوتا ہے۔ آپ اس کو ایک درخواست دیں گے، جس میں مطوبہ معلومات کا واضح ذکر ہو۔ درخواست کو بذات خود، بذریعہ ڈاک یا ای میل بھیجا جا سکتا ہے۔
پبلک انفارمیشن آفیسر معلومات کے لیے دی جانی والی درخواستوں پر عمل درامد یقینی بنانے کا ذمہ دار ہوگا۔ کسی بھی عوامی ادارے کے پاس یہ اختیار موجود نہیں کہ وہ درخواست گزار سے معلومات لینے کی وجہ پوچھے کہ آپ کو یہ معلومات کیوں چاہیے۔
درخواست موصول ہونے کے بعد عوامی ادارہ اس قانون کے تحت پابند ہے کہ وہ مطلوبہ معلومات دس دن کے اندر اندر فراہم کریں، اس مدت کو اس صورت میں مزید دس دن تک بڑھایا جا سکتا ہے جب معلومات یا ریکارڈ کی تعداد زیادہ ہو اور دس دن میں جمع کرنا ممکن نہ ہو۔
اگر 20 دن کے اندر اندر کسی عوامی ادارے نے درخواست گزار کو معلومات فراہم نہیں کی تو اس کے پاس اختیار ہے کہ وہ خیبر پختونخوا انفارمیشن کمیشن میں شکایت درج کرائیں۔ انفارمیشن کمیشن ایک آزاد قانونی ادارہ ہے جس کا سربراہ چیف انفارمیشن کمشنر ہوتا ہے اور ان کے ساتھ دو کمشنرز ہوتے ہیں۔
معلومات تک رسائی نہ صرف عوام اور حکومتی اداروں کے درمیان بہت سے مسائل کو آسانی سے حل کرنے میں مدد دیتے ہیں بلکہ اس سے عوام کا حکومت پر اعتماد بھی بحال رہتا ہے۔
اس قانون کے تحت 2013 سے 2023 تک 24548 شہریوں نے معلومات کے حصول کے لیے درخواستیں دی ہیں جن میں 13398 درخواست گزاروں کو معلومات فراہم کر دی گئیں ہے۔ اس طرح انفارمیشن کمیشن کو 10427 شکایات موصول ہوئیں جن میں 8813 کو حل کر لیا گیا جبکہ 1568 شکایات حل طلب تھے۔
اس قانون کے تحت کچھ معلومات ایسی ہے جس تک رسائی کے لیے عوامی اداروں کو نہیں کہا جائے گا۔ یعنی اگر معلومات سے بین الاقوامی تعلقات اور قومی سلامتی کو نقصان پہنچنے کا خدشہ ہو تو عوامی ادارہ معلومات تک رسائی سے انکار کر سکتا ہے۔
وہ معلومات جس سے کسی تیسری شخص کے ہرائیوسی متاثر ہو سکتی ہے، وہ معلومات جس سے جرم کے ارتکاب کا خطرہ ہو یا جس سے مجرم کی گرفتاری کے سلسلے میں نقصان کا خطرہ ہو، اس طرح عوامی اداروں کو اختیار ہے کہ وہ کمرشل اور خفیہ معلومات فراہم کرنے سے انکار کریں۔
حکومت نے ایک موثر قانون بنا کر تو دیدیا لیکن اب یہ شہریوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس کو استعمال میں لاکر عوامی اداروں کے بہتری میں اپنا کردار ادا کریں
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 1946 میں اپنی قرارداد نمبر (1)59 میں آزادی معلومات کو انسان کا بنیادی حق قرار دیا ہے جسے بعد میں یونیورسل ڈیکلریشن آف ہیومن رائٹس UDHR 1948 کے آرٹیکل 19 میں بھی شامل کیا گیا ہے۔