سیاستکالم

کیا نواز شریف نے پھر اپنے پاؤں پر کلہاڑی مار لی؟

ابراہیم خان

پاکستان کے تین بار وزیر اعظم بننے والے نوازشریف کے بارے میں ایک بے لاگ سیاسی تبصرہ پہلے سماعت فرما لیجئے۔ یہ تبصرہ ان کی شخصیت کا بڑی حد تک احاطہ بھی کرتا ہے۔ تبصرہ نگار کا کہنا تھا کہ نواز شریف کی حیثیت اس بچے کی مانند ہے جو اور کچھ نہ ہو تو راہ میں پڑے بارودی مواد کو لات مار کر اپنے لیے زبردستی مشکلات مول لے لیتے ہیں۔

حالیہ صورتحال میں اگر دیکھا جائے تو سارے معاملات استوار ہو چکے تھے جس کا ثبوت یہ ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی کی دبی دبی چیخیں محسوس کی جارہی تھیں۔ دونوں جماعتوں میں بات "مس انڈر سٹینڈگ” سے تلخی تک آ گئی ہے۔ وہ جو پہلے 90 روز میں الیکشن نہ کرانے پر یکجا رہے تھے اب مختلف رائے پر اصرار کر رہے ہیں۔ بظاہر ان کا سکرپٹ بالکل ٹھیک چل رہا تھا، 16 ماہ کی ایک اور رفاقت غارت چلی گئی۔ اس کی بنیادی وجہ یہی تھی کہ نواز شریف کی بات بن گئی تھی۔ شہباز شریف کو خصوصی طور پر پاکستان بھجوایا گیا تاکہ وہ یہاں مریم نواز کے ساتھ مل کر نواز شریف کے فقید المثال استقبال کے انتظامات کریں۔ نواز شریف کی واپسی کو جیسے کنگ کانگ کی واپسی سے تعبیر کیا جا رہا تھا۔

مسلم لیگ والے تو ابھی تک ایسا تاثر دے رہے ہیں جیسے نواز شریف ملکی سرزمین پر قدم رکھیں گے اور تمام مسائل حل ہو جائیں گے۔ گویا نواز شریف کی آمد کو ایک تاریخی موقع بنایا جارہا تھا کہ اچانک نہ جانے چوتھی دفعہ وزارت عظمیٰ پر فائز ہونے کی خواہش میں جذباتی ہوکر اپنے ہی اوپر حملہ کرڈالا۔

لندن میں نوازشریف اپنی جماعت کے لیگیوں کو دیکھ کر جذبات کی رو میں ایسے بہہ گئے کہ اپنے ہی پیر پر کلہاڑی کا وار کر گئے۔ نواز شریف نے کہا کہ وہ تحریری طور پر کہہ سکتے ہیں کہ وہ ملک چوتھی بار وزیر اعظم بننے جا رہے ہیں۔ بات صرف یہیں تک محدود نہیں رہی بلکہ وہ دو ہاتھ مزید آگے بڑھے اور یہ بھی بول گئے کہ ان لوگوں کا احتساب کیا جائے گا جنہوں نے ملک کو نقصان پہنچایا۔ نواز شریف، جو خود ڈیل اور ڈھیل کے طفیل واپس آ رہے ہیں، نے ملک کو نقصان پہنچانے کا ذمہ دار جرنیلوں اور ججوں کو قرار دیا۔ ساتھ ہی انہوں نے جنرل باجوہ اور جنرل فیض کے ساتھ ساتھ اگلے چیف جسٹس آف پاکستان اعجاز الاحسن کے خلاف ایکشن کرنے کا کہا، ان میں سے دو حضرات تو ریٹائر ہو چکے ہیں البتہ جسٹس اعجاز الاحسن نہ صرف حاضر سروس جج ہیں بلکہ 13 ماہ کے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے دور کے بعد اگلے چیف جسٹس بھی ہوں گے۔

میاں نواز شریف کا کہنا تھا کہ وہ پاکستان کو نقصان پہنچانے والے ان لوگوں کو نشان عبرت بنا ڈالیں گے۔ نواز شریف بنیادی طور پر انتہائی ضدی آدمی ہے اور وہ اس سے پہلے بھی ایک اور آرمی چیف کے خلاف غداری کا مقدمہ کر چکے ہیں۔ سابق آرمی چیف جنرل پرویز مشرف کو نشان عبرت بنانے کے لئے انہوں نے بڑی کوشش کی وہ وزارت عظمی کی کرسی پر براجمان تھے، لیکن اس کے باوجود پرویز مشرف کے خلاف جو وہ چاہتے تھے اسے عملی جامہ نہیں پہنا سکے۔پرویز مشرف ان کے دور اقتدار میں ہی ملک سے باہر چلے گئے، مگر وہ ان کی فلائیٹ نہ روک سکے۔ نواز شریف کے دور حکومت میں بھی انہیں بیرون ملک پنشن پہنچتی رہی اور ان کی زندگی کے اخری دن تک انہیں ان کی پنشن ملتی رہی۔

اس بات سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ نواز شریف، پرویز مشرف کے خلاف ایڑی چوٹی کا زور لگا کر بھی کوئی کارروائی نہیں کر سکے تو اب وہ ایک اور ریٹائرڈ آرمی چیف قمر جاوید باجوہ کے خلاف کون سی کارروائی کر پائیں گے؟

نواز شریف نے مختلف حکومتی ادوار میں صرف فوج کے ساتھ ہی پنگے نہیں لئے، بلکہ انہوں نے عدلیہ کو بھی ہر دور میں فتح کرنے کی کوشش کی ہے۔ یہ نواز شریف ہی تھے جنہوں نے چیف جسٹس سجاد علی شاہ کی عدالت پر مسلم لیگی غنڈوں کے ذریعے حملہ کرایا۔ ان غنڈوں نے جب سپریم کورٹ کی اینٹ سے اینٹ بجادی تو انعام کے طور پر پنجاب ہاؤس میں ان کی پراٹھوں سے تواضع کی گئی۔ اس حملے کی وجہ یہ تھی کہ چیف جسٹس سجاد علی شاہ مرحوم نے نواز شریف مطالبات ماننے سے انکار کردیا تھا۔ جسٹس سجاد علی شاہ مرحوم اعلیٰ پائے کے ایماندار جج تھے اور وہ نواز شریف کے سامنے نہیں جھکے، جس کی انہیں بھاری قیمت تو ادا کرنی پڑی لیکن تاریخ میں جسٹس سجاد علی شاہ کا مقام بہت معتبر اور اونچا ہے جبکہ نواز شریف ابھی تک اسی قسم کی تاریخ رقم کرتے جا رہے ہیں جس کا انہیں تجربہ حاصل ہے۔ اپنے اسی تجربے کی روشنی میں نواز شریف نے لندن میں لیگیوں سے خطاب کے دوران جسٹس اعجاز الاحسن کو بھی نشانے پر لے لیا۔ جسٹس اعجاز الاحسن ان ججوں میں سے آخری جج، سپریم کورٹ میں بچے ہیں جنہوں نے پانامہ کیس میں نواز شریف کو نا اہل کیا تھا۔ نواز شریف کی جسٹس اعجاز الاحسن سے ایک تو پرانی” محبت” ہے دوسری اس "محبت” میں تازہ اضافہ اس وجہ سے ہوگیا ہے کہ موصوف اس بنچ کا بھی حصہ تھے جس نے نیب کے قوانین میں شہباز شریف حکومت کی ترامیم کو اڑا کر رکھ دیا۔ اس بنچ میں سابق چیف جسٹس عطاء عمر بندیال اور جسٹس اعجاز الاحسن مینیج نہیں ہو سکے، جس کا نواز شریف اینڈ کمپنی کو بہت قلق ہے۔ اسی وجہ سے انہوں نے جن تین افراد کو نشان عبرت بنانے کی بات کی ہے، اس میں جسٹس اعجاز الاحسن بھی شامل ہیں۔

نواز شریف کی اس تقریر کے بعد حالات تیزی سے بدل گئے ہیں۔ وہ شہباز شریف جن کو لندن سے پاکستان اس لئے بھیجا گیا تھا کہ وہ یہاں نواز شریف کے فقید المثال استقبال کی تیاریاں کریں۔ وہ پاکستان آتے ہی الٹے پیروں واپس لندن چلے گئے ہیں۔ میڈیا نے ان کی واپسی کے بارے میں یہ کہا ہے کہ شہباز شریف پاکستان کے طاقتور حلقوں کا پیغام لے کر لندن گئے ہیں۔ شہباز شریف کے بعد نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز کو بھی لندن بلا لیا گیا ہے۔ ان حالات کے بارے میں مختلف تبصرے کئے جا رہے ہیں تاہم باخبر حلقوں کا کہنا ہے کہ نواز شریف نے اپنے ماضی سے کوئی سبق نہیں سیکھا اور انہوں نے جن تین افراد کے خلاف اقتدار میں آ کر ایکشن لینے اور بے رحم احتساب کی بات کی ہے وہ مقتدر حلقوں کو پسند نہیں آئی۔ نواز شریف نے اپنی تقریر میں جو سب سے خوفناک بات کہی ہے، وہ ان کا یہ کہنا تھا کہ وہ تحریری طور پر دعویٰ کرسکتے ہیں کہ وہ چوتھی بار وزیر اعظم بننے جا رہے ہیں۔

نواز شریف کے اس دعوے نے پورے سسٹم اور خاص طور پر مبینہ یقین دہانیاں کرانے والوں کے نام کے سامنے سوال کھڑے کر دئے ہیں۔ نواز شریف کی اس بے احتیاطی کی وجہ سے ان پر دست شفقت رکھنے والے حلقے دو حصوں میں بٹ گئے ہیں۔ اطلاعات یہ ہیں کہ ایک گروپ کا موقف اب بھی جوں کا توں ہے، وہ اب بھی نواز شریف کے لئے نرم گوشہ رکھتاہے۔ دوسرا گروپ ایسا ہے جو نواز شریف کو ان کی باتوں کی بنیاد پر ہی اب سسٹم کے ذریعے اپنے آپ کو آگے لائیں۔اس گروپ کی طرف سے مبینہ طور پر نواز شریف کو یہ پیغام بھی بھجوادیا گیا ہے کہ وطن واپسی پر پہلے قانون کے تحت جیل جائیں گے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ جو لیول پلیئنگ فیلڈ نواز شریف کو میسر تھی، اس میں کسی حد تک کمی کر دی گئی ہے۔ نواز شریف اگر ان حالات سے اب دو چار ہیں تو اس کے ذمہ دار وہ خود ہیں۔ انہوں نے خود کو اس مشکل میں ڈالا ہے جس کی وجہ سے اب یہ امکانات بھی بڑھ رہے ہیں کہ الیکشن واقعی 90 روز کے اندر ہوسکتے ہیں۔ دوسری طرف سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں نیب نے ہنگامی اجلاس کے بعد پرانے مقدمات کو دوبارہ وہیں سے شروع کرنے کے لئے متحرک ہو گیا ہے، جہاں وہ عمران خان کی حکومت کے جانے کے موقع پر تھے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ مسلم لیگ سمیت سابق حکمران جماعتوں کے لئے حالات مشکل ہو رہے ہیں۔ جس کی وجہ سے ممکن ہے کہ وہ دوبارہ اپنے راہ و رسم بڑھا لیں۔

نوٹ: لکھاری کے خیالات سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں 

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button