سیاستکالم

لاشوں پر سیاست

حمیراعلیم
سیاست کے لغوی معنی ہیں حکومت چلانا اور لوگوں کی امر و نہی کے ذریعہ اصلاح کرنا ہے۔ اور اصطلاحی معنی کے مطابق فن حکومت اور لوگوں کو اصلاح سے قریب اور فساد سے دور رکھنا ہے مگر افسوس کہ ہمارے ہاں سیاست کا مفہوم بقول خالد مسعود کچھ یوں لیا جاتا ہے۔
ساڈے جو ارادے تھے
کڈے سدھے سادھے تھے
ہم نے سو چ رکھا تھا
بن کے ایک دن ممبر
اکو کام کرنا ہے
ایک دو پلازوں کو
چار چھے پلاٹوں کو
پنجی تیہہ مربعوں کو
اپنے نام کرنا ہے
شکر اے خداوندا
تو نے اس نمانے کی
نِکی جِنی خواہش کو
سن لیا ہے نیڑے سے

پاکستان میں سیاستدان ہونے کے لیے جن خصوصیات کی ضرورت ہے ان میں خودغرضی، جھوٹ میں مہارت اور چکنا گھڑا ہونا سرفہرست ہیں۔ سیاستدان کے لیے اشد ضروری ہے کہ وہ ہر اس موقعے سے فائدہ اٹھائے اور اپنی سیاست چمکائے جو اسے میسر آجائے خواہ وہ کسی کی موت ہی کیوں نہ ہو۔ یہی وجہ ہے کہ علامہ اقبال نے انہیں جمہور کے ابلیس کے نام سے پکارا ہے۔

ایسا اس لیے کہہ رہی ہوں کیونکہ حال ہی میں عباد فاروق نامی سیاستدان کے نو سالہ بیٹے عمار فاروق کا انتقال ہوا۔ ان کی فیملی کے مطابق بچے کو والد ،والدہ، دادی کی اسیری سے صدمہ پہنچا اور وہ بیمار ہو گیا۔ جب کہ ان کے مخالفین کا کہنا ہے کہ بچے کو مرگی یا کوئی اور بیماری تھی جس کی وجہ سے اس کا انتقال ہوا ہے اور دونوں جانب سے اپنے مؤقف کے ثبوت کے طور پر میڈیکل رپورٹس بھی پیش کی گئی ہیں۔

میں نہیں جانتی کہ کون سی رپورٹس سچی ہیں اور کون سی جھوٹی کیونکہ آج کل جھوٹ کو سچ اور سچ کو جھوٹ ثابت کرنے کے لیے ہزاروں طریقے آ چکے ہیں۔ کمپیوٹر سے چند لمحوں میں کوئی بھی ڈاکومنٹ بنانا بے حد آسان ہو چکا ہے۔لیکن میں ایک بات اچھی طرح جانتی ہوں کسی بھی شخص کے لیے اس کی اولاد خواہ چند دن کا بچہ ہو یا 50 سالہ بوڑھا اس کی کل کائنات ہوتا ہے۔ اپنے بچے کو زندگی کی آسائشیں دینے اور اس کی صحت کی خاطر انسان اپنی جان سے بھی گزر جاتا ہے۔ بچہ کسی غیر کا بھی بیمار ہو تو انسانی فطرت ہے کہ وہ دکھی ہو جاتا ہے۔ بیمار کی صحت کے لیے دعا کرتا ہے۔

لیکن شاید ہمارے سیاستدان انسانیت کے درجے سے بھی گر چکے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ عمار فاروق کی لاش پر اپنی سیاست کی دکان چمکا رہے ہیں۔

عمار بیمار تھا تب بھی دونوں اطراف سے اس کے بارے میں بیان آ رہے تھے۔ وہ کریٹیکل کنڈیشن میں تھا تو ایک الزام یہ تھا کہ حکومتی و سیاسی دباؤ کی وجہ سے لاہور کے کسی ہاسپٹل نے اسے ایڈمٹ کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ دوسری جانب سے جوابا بتایا گیا کہ جس ہاسپٹل میں عمار ایڈمٹ تھا اس کی انتظامیہ نے فیملی سے درخواست کی تھی کہ سیاسی کارکنان، سوشل میڈیا پرسنز، یو ٹیوبرز میڈیا پرسنز اور دیگر لوگوں کے وزٹ کی وجہ سے دوسرے مریض ڈسٹرب ہو رہے ہیں اس لیے آپ بچے کو گھر لے جائیے۔ اسی وجہ سے دوسرے کسی ہاسپٹل نے بھی اسے ایڈمٹ نہیں کیا۔

ایک گروپ کا موقف تھا کہ عمار کی موت کے ذمہ دار سیاسی لوگ اور ریاستی ادارے ہیں جب کہ دوسرا اس کے والد کو نو مئی کے واقعات میں ملوث ہونے اور بیٹے کی بیماری سے لاپرواہی کا مرتکب ٹھہرا رہا تھا اور عمران خان کو اس کی موت کا مجرم سمجھتا ہے۔

ہر ایک اپنی پارٹی کو معصوم اور دوسرے کو مجرم ثابت کرنے کی سرتوڑ کوشش کر رہا ہے۔ سیاسی کارکنان کے بارے میں شاعر نے کیا خوب کہا ہے:
یہ لوگ پاوں نہیں ذہن سے اپاہج ہیں
ادھر چلیں گے جدھر رہنما چلاتا ہے

پنجابی کا محاورہ ہے دشمن مرے تے خوشی نہ کریے سجنا وی مر جانا اے۔ لیکن شاید سیاستدان اور سیاسی کارکنان یہ سمجھتے ہیں کہ وہ آب حیات پی کر آئے ہیں اور ان پر یا ان کے پیاروں پر یہ وقت نہیں آنی۔ ورنہ مریم نواز ارشد شریف کے میت والے تابوت کی تصویر کے ساتھ سبق والا ٹویٹ نہ کرتیں۔ عمار فاروق کی ویڈیوز اور تصاویر کے ساتھ دو گروپس کی بیان بازی نہ چل رہی ہوتی۔

کوئی بھی شخص خواہ کسی بھی پیشے، طبقے یا مذہبی و سیاسی جماعت سے تعلق رکھتا ہو پہلے انسان ہے اور پھر پروفیشنل۔ اس لیے عباد فاروق اور ان کی فیملی پر رحم کھائیے۔ ان کی جگہ اپنے آپ کو رکھ کر سوچیے اور انہیں بیٹے کا غم منانے دیجئے۔ وہ سب اس وقت جس کرب سے گزر رہے ہیں اس کا اندازہ کیجئے اور اگر ان کے دکھ کو کم نہیں کر سکتے تو اس میں اضافہ بھی مت کیجئے۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button