ابراہیم خان
عدالت عظمٰی پاکستان کے نئے کپتان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے بطور چیف جسٹس آف پاکستان اپنی اننگز شروع کردی ہے۔ اپنی اہلیہ کے ہمراہ حلف لے کر انہوں نے جو پیغام دیا اور جن کو دیا تو خوب دیا، واہ واہ ہوئی اور ہونی بھی چاہئے تھی۔ ان اس ادائے حلفی پر آئین اور جمہوریت پر یقین رکھنے والوں کے ساتھ ساتھ صنفی مساوات کے علمبردار بھی عش عش کر رہے تھے۔ اس اقدام سے قاضی فائض عیسیٰ کے ذہن میں نہ جانے کون سا پیغام دینا مقصود تھا لیکن اپنی اہلیہ کو ساتھ کھڑے کرنے کے اقدام کو مختلف شعبہ ہائے زندگی کے لوگوں نے مختلف معانی پہنائے، ہر ایک نے اپنی دانست کے مطابق اسے مطلب پہنائے۔ قاضی فائض عیسیٰ کا یہ پہلا سرپرائز تھا۔ اس کے بعد ان کا دوسرا سرپرائز جو متوقع بھی تھا، کے بارے میں عدلیہ کے کپتان نے اعلان کیا کہ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل کو سب سے پہلے سماعت کیلئے مقرر کردیا۔ اس اقدام پر ان کو مزید داد ملی۔ یہ داد اس وقت مزید بڑھ گئی جب اس معاملے پر فل کورٹ کی سماعت مقرر کر دی گئی۔ عدلیہ کے کپتان نے سرپرائز کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے یہ اعلان بھی کر ڈالا کہ اس مقدمے کی سماعت براہ راست پی ٹی وی اور اس کے توسط سے دیگر چینلز پر نشر کی جائے گی۔ عدالت عظمی کے حوالے سے اگر بات کی جائے تو یہ بہت بڑا سرپرائز تھا۔ اس سرپرائز کی وجہ یہ تھی کہ قیام پاکستان سے لے کر اب تک کمرہ عدالت کی ایک تصویر تک بھی اتارنے کی ممانعت تھی۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ اگر کسی نے کوئی ایسی جرات رندانہ کی بھی تو اس کے کیمرے اور موجودہ دور میں موبائل چھین لئے جاتے تھے۔ یہ اپنی نوعیت کا بہت بڑا سرپرائز تھا، جس میں ملکی تاریخ میں پہلی بار سپریم کورٹ کی اندرونی کارروائی براہ راست باہر عوام کے سامنے آرہی تھی۔ عوام بھی کافی پرجوش تھے کہ وہ بھی ٹی وی سکرین کی کھڑکی سے سپریم کورٹ کے اندر جھانکیں گے۔
قاضی فائز عیسیٰ کے سرپرائز یہی پر ختم نہیں ہوئے بلکہ پیر کے دن جو بطور چیف جسٹس آف پاکستان ان کا پہلا ورکنگ ڈے تھا، اس روز پہلے انہوں نے بلٹ پروف گاڑی واپس کرکے سرپرائز سیریز میں ایک اور اضافہ کیا پھر انہوں نے گارڈ آف آنر لینے سے بھی انکار کردیا۔
قاضی فائز عیسیٰ کی اس سرپرائز سیریز میں اسے بھی ایک سرپرائز ہی قرار دیا جا سکتا ہے کہ سپریم کورٹ کی عدالت نمبر 1 میں 2019ء کے بعد پہلی بار دستیاب فل کورٹ دیکھا۔ سپریم کورٹ میں عام طور پر 17 ججز ہوتے ہیں لیکن سردست دو ججز کی آسامیاں خالی پڑی ہیں۔ پندرہ کے پندرہ ججز نے پریکٹس اینڈ پروسیجر بل کی سماعت شروع کی۔
عام طور پر یہی خیال کیا جا رہا تھا کہ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل پر عطاء عمر بندیال کی قیادت میں جس 8 رکنی بینچ نے اس قانون پر حکم امتناعی جاری کر دیا تھا فل کورٹ اس حکم امتناعی کو ختم کردے گا۔ دوران سماعت قاضی فائز عیسیٰ اور ان کے ہم خیال ججوں کی طرف سے جو جو سوالات ہوتے رہے، ان سے بھی یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ چیف جسٹس کا کیمپ اس حکم امتناعی کو اڑانے کے لئے تیار بیٹھا ہے۔ چار گھنٹے کی سماعت کے بعد نہ تو حکم امتناعی ٹوٹا اور نہ ہی اس بل کو باقاعدہ قانون کا درجہ دیا گیا۔ چیف جسٹس نے اس مقدمے کی سماعت 3 اکتوبر تک کے لئے ملتوی کر دی۔ اس مقدمے کی سماعت 3 اکتوبر تک اس لئے ملتوی کی گئی کہ ایک جج جو منگل کے روز بیرون ملک جا رہے ہیں، وہ 3 اکتوبر کو وطن لوٹیں گے۔ اس وجہ سے اس مقدمے کی سماعت کی اگلی تاریخ 3 اکتوبر مقرر کر دی گئی۔
قاضی فائز عیسیٰ کی بطور چیف جسٹس یہ پہلی اننگز تھی جس میں انہوں نے جارحانہ انداز اپنایا۔ سماعت کے دوران ایک موقع پر ان کا انداز اس قدر جارحانہ ہوگیا کہ پاکستان تحریک انصاف کے وکیل نے کہا کہ چیف جسٹس ان کو بولنے بھی نہیں دے رہے اور ان کا انذاز بھی نامناسب ہے۔ قاضی فائز عیسیٰ کی جارحیت نے پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کے وکیل خواجہ طارق رحیم کو بھی اس وقت خاموش کرا دیا، جب انہوں نے مختلف سوالات کے جوابات دیتے ہوئے یہ کہا کہ ان کی رائے میں یہ صورتحال ایسی ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ یہاں آپ کی رائے یا میری رائے کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ آپ جو بھی بات کریں اس کی حمایت میں آئین کا حوالہ پیش کریں۔اس بات پر انہوں نے بار بار زور دیا تو خواجہ طارق رحیم کو چپ لگ گئی۔
ملک کی تاریخ میں سپریم کورٹ سے اس کارروائی کی براہ راست نشریات کو دن بھر عوام نے بڑی دلچسپی سے دیکھا۔ اس مقدمے میں ابھی مزید پیشیاں باقی ہیں لیکن اس براہ راست کارروائی دکھانے کا مقصد یہ تھا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ یہ پیغام دینا چاہ رہے تھے کہ پارلیمنٹ کا حق ہے کہ وہ قانون بنائے اور پارلیمنٹ نے اگر چیف جسٹس کے اضافی اختیارات کو کم کیا ہے تو یہ کوئی غلط بات نہیں ہوئی۔ انہوں نے اس کارروائی کے دوران متعدد بار یہ سوال وکلاء سے پوچھا کہ اس بل سے عوام کو کیا نقصان پہنچا ہے؟ تو کوئی بھی وکیل اس کا جواب نہیں دے سکا۔ انہوں نے کہا کہ ماضی میں سپریم کورٹ کے ججز کی طرف سے دیا گیا ریکوڈک کمپنی کا فیصلہ ملک کے لئے مالی طور پر بہت نقصان دہ ثابت ہوا تھا۔ اس لئے ضروری ہے کہ سپریم کورٹ کے ججز بھی ایسے فیصلے کریں جو عوام کی فلاح کے لئے ہوں اور آئین کے عین مطابق ہوں۔ انہوں نے واضح پیغام دیا کہ وہ اپنے دور میں کوئی بھی ایسا فیصلہ نہیں کریں گے جو عوام اور آئین کے مفادات کے برخلاف ہوں۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنے اور اپنے ساتھی ہم خیال ججز کی طرف سے بغیر کچھ کہے اپنی ترجیحات واضح کر دیں۔ ان ترجیحات کا سامنے آنا مثبت اقدام ہے، لیکن اس براہ راست نشریات نے عدلیہ کے ایسے حقائق بھی عوام کے سامنے لا کر رکھ دئے جن سے اعلیٰ عدلیہ کا منفی تاثر اجاگر ہوا ہے۔ سماعت کے دوران ججز کی گروپنگ بہت واضح طور پر دکھائی دے رہی تھی۔ سوشل میڈیا پر اس حوالے سے بڑی چسکے دار باتیں کی جا رہی ہیں۔ اس براہ راست نشریات کا یہ نقصان ہوا کہ عوام اب یہ سوچ رہے ہیں کہ جس طرح سیاست دانوں کے آپس میں اختلافات ہیں، بالکل اسی طرح اعلیٰ عدلیہ کے ججز بھی ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھے ہوئے بھی کوسوں دور ہیں۔ ججز کے درمیان ان اختلافات سے سپریم کورٹ کا منفی تاثر ابھرا ہے۔ یہ تاثر کسی واسطے کے ذریعے عوام کے سامنے نہیں آیا بلکہ عوام نے جو دیکھا اسی سے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے۔ اس نتیجے کا منفی ترین پہلو یہ ہے کہ عوام جن کا پہلے صرف ماتحت عدالتوں پر ہی اعتماد نہیں تھا لیکن اب اعلیٰ عدالتوں سے وابستہ اگر کوئی خوش فہمیاں تھیں تو وہ بھی ختم ہو گئی ہیں۔ اس صورتحال میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے سامنے اپنی 13 مہینے کی سربراہی میں سب سے پہلا چیلنج یہ ہے کہ وہ ملک کی اعلی ترین عدالت کے اندر پائے جانے والے اختلافات کو کیسے اور کتنی جلدی ختم کرتے ہیں؟ اسی طرح انہوں نے پہلی سماعت کے دوران بار بار آئین کی بلند دستی کا جو ذکر کیا ہے اس کی روشنی میں تو جب عام انتخابات کی تاریخ کا معاملہ عدالت کے سامنے ائے گا تو آئین کے تحت انتخابات 90 روز کے اندر اندر ہی کرانے کے علاوہ کوئی چارہ کار نہیں ہے۔ عدالت عظمیٰ کو 90 روز کے اندر انتخابات کی تاریخ دینا ہوگی۔ اگر اس معاملے میں کوئی اونچ نیچ ہوتی ہے یا حلقہ بندیوں کے معاملے سے کوئی نئی صورتحال بنائی جاتی ہے تو ایسی صورت میں قاضی فائز عیسیٰ سے وابستہ توقعات بھی متاثر ہو سکتی ہیں۔ اس لئے ضروری ہے کہ قاضی فائز عیسیٰ نے اپنی اوپننگ اننگز میں آئین کی بالادستی جو ٹیمپو پیش کیا ہے اسے برقرار رکھیں گے تو راستہ ہموار ہوتا چلا جائے گا۔ انہیں اگر اپنے پیش رو عطاء عمر بندیال کے مقابلے میں ایک اچھا اور باوقار سپریم کورٹ چھوڑ کر جانا ہے تو سب کو ساتھ لے کر چلنا ہوگا تاکہ زیر التواء مقدمات بھی ختم ہوں اور عام آدمی کو بھی انصاف مل سکے، اسی میں ان کی کامیابی ہے بصورت دیگر مؤرخ یہ نہیں لکھے گا کہ قاضی فائز عیسیٰ نے پروٹوکول لیا یا نہیں، گارڈ آف آنر لیا یا نہیں البتہ یہ ضرور لکھے گا کہ قاضی کورٹس نے عوام کیلئے انصاف کا حصول کس قدر سہل بنایا؟