ابراہیم خان
یہ حالات کا جبر ہے یا حسن اتفاق کہ صدر مملکت عارف علوی معاملات کو نمٹانے میں دیر کردیتے ہیں۔ صدر مملکت کے پاس دو اہم ترین بل منظوری کے لئے پڑے تھے تو جب تک ان بلوں کو واپس بھجوانے کی مہلت ختم نہیں ہوئی تھی۔ اس وقت تک صدر مملکت نے اپنے عملے سے ٹھونک بجا کر نہیں پوچھا کہ انہوں نے وہ بل واپس بھیج دئے ہیں یا نہیں؟ اگر وہ وقت مقررہ کے اندر سختی سے کھوج لگاتے تو شائد یہ معاملہ پہلے حل ہو جاتا۔ لیکن شائد انہیں تاخیر کرنے کی عادت ہو گئی ہے کہ جب یہ بل حکومت نے باقاعدہ قانون کی شکل میں جاری کر دیا، تو موصوف نے اللہ کو حاضر و ناظر بنا کر اس بل پر دستخط سے ہی انکاری ہوگئے۔ یہ مرحلہ جیسے تیسے کر کے گزر گیا۔ کہیں سے خاموشی اپنائی گئی تو کسی نے جواب دینا ہی مناسب نہیں سمجھا۔ ایسے میں صدر مملکت پر یہ الزام بھی لگا اور پوری شد و مد سے لگا کہ وہ وکٹ کے دونوں طرف کھیل رہے ہیں۔ وہ کسی کو بھی ناراض نہیں کرنا چاہ رہے۔ ان سے ان کی اپنی جماعت پاکستان تحریک انصاف نے یہ سوچ کر کہ صدر نے شائد واقعی ان بلوں پر دستخط نہیں کئے ہوں گے، یہ مطالبہ کر دیا کہ اب صدر مملکت قومی اسمبلی کے انتخابات کی تاریخ دیں۔
تحریک انصاف نے باقاعدہ حوالہ دیا کہ صدر کے پاس آئین کی رو سے اختیار ہے کہ وہ قومی اسمبلی تحلیل کرنے کی ایڈوائس پر دستخط کرنے کے بعد آئین کے تحت نئے انتخابات کی تاریخ دے سکتے ہیں لہٰذا صدر مملکت اپنی ذمہ داری پوری کرتے ہوئے قومی اسمبلی کے انتخابات کی تاریخ دیں۔ تحریک انصاف کے اس موقف کے برعکس الیکشن کمیشن اور وہ جماعتیں جو مسلم لیگ کے موقف کی حمایت کر رہی ہیں۔ جن میں موجودہ نگران حکومت بھی شامل ہے۔ وہ مسلسل ایک ہی موقف پر اڑی ہوئی ہے کہ قانون میں ترمیم کے بعد اب الیکشن کی تاریخ دینے کا اختیار الیکشن کمیشن کے پاس ہے صدر مملکت یہ تاریخ نہیں دے سکتے۔ صدر مملکت اتنے زیادہ مشوروں کو سن سن کر عین ممکن ہے کہ کنفیوژ ہو گئے ہوں۔ ان کی کنفیوژن دور کرنے کے لئے دو افراد نے ان کے ساتھ ملاقات بھی کی۔ یہ ملاقات جس کی کوئی تردید نہیں ہوئی، میں صدر مملکت سے موسم کے حال پر تو گپ شپ نہیں لگی ہوگی بلکہ دونوں نے انہیں "سمجھایا” ہی ہوگا۔ اس ملاقات کا نتیجہ یہ نکلا کہ صدر مملکت جو 8 ستمبر تک باقاعدہ منتخب صدر تھے۔ انہوں نے اپنی اس باضابطہ حیثیت میں قومی اسمبلی کے انتخابات کی تاریخ کا اعلان نہیں کیا۔ اگر وہ اپنی مضبوط آئینی حیثیت میں انتخابات کے انعقاد کی تاریخ دے دیتے تو یہ بہت بہتر ہوتا لیکن وہ سوچتے رہ گئے یا پھر ان کی کوشش حسب سابق یہی رہی کہ وہ ایسا باریک کام کر جائیں کہ سب خوش بھی ہو جائیں اور فیصلہ ان لوگوں کی مرضی کے مطابق ہو جنہوں نے معاملات کو حل کرنے کا اختیار لے رکھا ہے۔
صدر مملکت 9 ستمبر کو عبوری صدر بن گئے۔ اگرچہ اب بھی وہ آئینی طور سے صدر ہی ہیں۔ لیکن اگر اخلاقیات کے تقاضوں کو ملحوظ رکھا جائے تو صدر مملکت 9 ستمبر کے بعد سے طفیلی صدر کہلائے جائیں گے۔ جس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ الیکٹورل کالج نہ ہونے کی بناء پر اب وہ اس عہدے پر براجمان ہیں۔ انہیں جو اختیارات پہلے حاصل تھے وہ اب اخلاقی طور سے نہیں ہونے چاہئیں۔ اس کے باوجود صدر مملکت نے اپنے عبوری صدر بننے کے پانچ روز کے بعد اپنی جماعت پاکستان تحریک انصاف کو "خوش” رکھنے کیلئے ان مطالبہ مانتے ہوئے نہایت ہوشیاری سے قومی اسمبلی کے انتخابات کی تاریخ دے ڈالی۔ صدر مملکت اپنی دانست میں شائد یہ سمجھ رہے ہوں گے کہ انہوں نے قومی اسمبلی کے انتخابات کی تاریخ دے دی۔ حقائق اس کے بالکل برعکس ہیں، صدر مملکت نے الیکشن کمیشن کو ایک بے ضرر سا خط لکھا ہے۔ جس میں انہوں نے تاریخ نہیں دی بلکہ ایک ایسے الیکشن کمیشن کو انتخابات کرانے کی تاریخ کی تجویز دی ہے جو صدر مملکت کو کسی کھاتے میں شمار کرنے کا روادار نہیں۔ یہ وہی الیکشن کمیشن ہے جس کو صدر نے انتخابات کی تاریخ کے لئے بغرض مشاورت بلایا، تو اس نے صدر سے ملاقات کرنے سے معذوری ظاہر کر دی، جبکہ امریکہ اور برطانیہ کے سفیروں سے ملاقات میں انہیں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں ہوئی۔
صدر مملکت نے اپنے خط میں جمع تفریق کرنے کے بعد یہ تجویز دی ہے کہ 6 نومبر 2023ء کو قومی اسمبلی کے انتخابات ہونے چاہئیں۔ صدر مملکت کو جو اختیار حاصل ہے اس کے تحت انہیں اس بار بھی صوبہ پنجاب میں 14 مئی کو جس طرح انہوں نے انتخاب کرانے کی تاریخ دی تھی، اسی طرح اب بھی کہنا چاہیے تھا کہ قومی اسمبلی کے انتخابات 6 نومبر کو ہوں گے، لیکن ایسا کرنے کے بجائے انہوں نے الیکشن کمیشن کو درخواست کی ہے کہ وہ اس معاملے پر سپریم کورٹ سے رائے لے لیں۔ گویا صدر مملکت نے حتمی طور پر تاریخ دینے کے بجائے ایک رائے دی ہے، جو پہلے ہی سپریم کورٹ پہنچ چکی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ قومی اسمبلی کے انتخابات کی تاریخ اب کوئی اور نہیں بلکہ وہ سپریم کورٹ دے گی جس کے سربراہ جسٹس قاضی فائض عیسیٰ ہوں گے۔
صدر مملکت یہ کاروائی کمال ہوشیاری سے کر گئے۔ انہوں نے وہی کام کیا کہ سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے۔ صدر مملکت سانپ کو تو نہیں مار پائے لیکن اپنی لاٹھی بچا گئے۔
صدر مملکت نے ایک ایسے وقت میں قومی اسمبلی کے انتخابات کی تجویز دی ہے، جب مسلم لیگ کے قائد نواز شریف دو سال 11 ماہ کے بعد "صحت یاب” ہو کر 21 اکتوبر کو عازم پاکستان ہو رہے ہیں۔ نواز شریف نے اپنی پاکستان واپسی کی تاریخ اس وقت دی ہے، جب نگران کابینہ میں ان کے ایک اور چہیتے فواد حسن فواد کو بھی شامل کر لیا گیا ہے۔ اس طرح نگران کابینہ میں نواز لیگ کے حمایتی وزراء کی تعداد بڑھ گئی ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما خورشید شاہ نے بلا تکلف یہ بات کہی ہے کہ وفاقی کابینہ میں مسلم لیگ کے حمایتی نگران وزراء کی تعداد اتنی بڑھ گئی ہے کہ اس کابینہ کو بھی لیگی کابینہ قرار دیا جا سکتا ہے۔ کابینہ میں نواز لیگ کے حمایتی وزراء کے اضافے سے ایک بات واضح ہے کہ میاں نواز شریف فیصلہ سازوں سے جو لیول پلیئنگ فیلڈ مانگ رہے تھے وہ انہیں میسر آ گئی ہے۔ نواز شریف کا اعتماد اس قدر بڑھ چکا ہے کہ وہ وطن واپسی پر قواعد کے تحت جیل جانے کے بجائے، اپنے فقید المثال استقبال کے احکامات لندن سے جاری کر چکے ہیں۔ اپنے محبوب قائد کے حکم کو پورا کرنے کے لئے پاکستان میں لیگی متوالی قیادت اور کارکن متحرک ہو گئے ہیں۔ اگر نواز شریف واقعی 21 اکتوبر کو وطن لوٹتے ہیں تو ان کے شایان شان استقبال کے لئے کارکنوں کو مطلوبہ مقامات پر زیادہ سے زیادہ تعداد میں لانے کی منصوبہ بندی کی جا رہی ہے۔ قواعد کے تحت تو یہ ہونا چاہیے کہ اگر ملک میں کوئی غیر جانبدار حکومت قائم ہے، تو پھر میاں نواز شریف کو لاہور کے ہوائی اڈے پر اترتے ہی گرفتار کر لینا چاہیے۔ اس گرفتاری کے بعد انہیں عدالت میں پیش کرنا مناسب ہوگا۔ عدالت اگر ان کے حق میں فیصلہ دیتی ہے تو پھر وہ آزاد شہری کے حیثیت سے اپنی سرگرمیاں جاری رکھ سکتے ہیں۔ نواز شریف کی وطن واپسی کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ وہ آئندہ عوامی عدالت میں جانے کے لئے اپنی جماعت کی انتخابی مہم چلا سکیں۔ یہ مہم ان کے لئے اس صورت میں زیادہ بہتر ہوگی کہ وہ قواعد کا پالن کریں۔ بظاہر اگر دیکھا جائے تو مسلم لیگ کے پاس اتحادی حکومت کی کمان تھی۔
سابق اتحادی حکومت پاکستان کی تاریخ میں وہ بدترین حکومت قرار دی جا چکی ہے جس نے ملک میں بے پناہ مہنگائی برپاء کی ہے۔ ان حالات میں نواز شریف کے لئے یہ چیلنج بہت مشکل ہوگا کہ وہ عوام سے ووٹ حاصل کرنے کی حمایت حاصل کر سکیں۔ یہ صورتحال اس وقت مزید مشکل ہو سکتی ہے کہ جب عام انتخابات میں اگر اتحادی جماعتیں مد مقابل آ کر ایک دوسرے کے راز کھولیں گی تو عوام میں ان کی مزید سبکی ہو سکتی ہے۔ اس لئے میاں نواز شریف کی آمد سے یہ قیاس کرنا کہ وہ آتے ہی کوئی چھو منتر کر دیں گے اور مسلم لیگ مقبول ترین جماعت بن جائے گی۔ یہ توقع کرنا غلط فہمی کے سواء کچھ نہیں ہوگا۔ نواز شریف کے لئے بھی حالات بہت کٹھن ہوں گے۔ بڑا سوال یہ ہے کہ کیا وہ واقعی 21 اکتوبر کو پاکستان پہنچ جائیں گے؟ یہ سوال اس لئے اٹھایا جا رہا ہے کہ ماضی میں بھی شیر کی آمد کی بہت سی تاریخیں دی گئیں لیکن شیر نہیں آیا۔ اس دفعہ حالات مختلف ضرور ہیں کہ شیر کی جیب میں کابینہ کے نگران وزراء بھی ہیں اور "آشیرباد” بھی ان کے پاس ہے۔ جس کی وجہ سے خیال کیا جا رہا ہے کہ شیر شائد واقعی واپس آجائے گا۔
نوٹ: لکھاری کے خیالات سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں