سیاستکالم

ستمبر کس کے لیے بنے گا ستمگر؟

ابراہیم خان

پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم ) کی حکومت کے آخری ایام میں بعض حکومتی جماعت کے عہدیداروں نے دبے الفاظ میں یہ پیشن گوئی کردی تھی کہ الیکشن کمیشن کو جو عام انتخابات کے التواء کی جو پٹی پڑھائی گئی ہے، اس پر عملدرآمد کیا گیا تو یہ التواء الیکشن کمیشن کے گلے پڑ جائے گا۔ جس وقت یہ پیش بینی کی جارہی تھی، واقفان حال جانتے تھے کہ پی ڈی ایم کی حکومت کے کاندھوں پر سوار رہتے ہوئے الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ کے احکامات کو بھی پیروں تلے روند ڈالا تھا۔ مگر کوئی مائی کا لال بھی الیکشن کمیشن کی اس حکم عدولی پر اسے کچھ بھی نہ کہہ سکا۔ عدالت عظمیٰ نے صوبہ پنجاب میں منتخب اسمبلی کے آئین میں درج طریقہ کار کے مطابق توڑنے پر14 مئی کو صوبائی اسمبلی کے انتخابات کرانے کا حکم جاری کیا تھا۔ الیکشن کمیشن نے یہ حکم ہوا میں اڑا دیا تھا۔ حکومت وقت اور اداروں نے اس حکم عدولی کے کئی جواز گھڑے، تاکہ یہ ثابت کیا جاسکے کہ یہ حکم عدولی درست ہے۔ آئین پر چلنے والوں نے اس حکم عدولی کو ملکی جمہوریت کیلئے زہر قاتل قرار دیا تھا اور خبردار کیا تھا کہ اس کے سنگین نتائج برآمد ہوں گے۔ اس وقت کسی نے اس بات پر توجہ نہ دی حالانکہ بلاشبہ سپریم کورٹ کی حکم عدولی کا مہذب ریاستوں میں تصور تک کرنا محال ہے۔

سپریم کورٹ کے احکامات کو حکومت، الیکشن کمیشن اور طاقتوروں نے مل کر اڑا دیا۔ اس وقت عدالت کے اندر بھی ججز کے باہمی اختلافات کی وجہ سے بھی خاص طور پر چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطاء بندیال بلکہ ان کے حامی ججز کے خلاف انتہائی گھٹیا زبان استعمال کی گئی۔ نواز شریف اور زرداری کے سامنے نمبر بنانے کیلئے ان جماعتوں کے "درباریوں ” نے پارلیمنٹ میں بیٹھ کر ججز کے بارے میں ایسی زبان استعمال کی جس کو پاکستان کی عدالتی اور پارلیمانی تاریخ میں ہمیشہ بری نظر سے دیکھا جائے گا۔ حکومت اور الیکشن کمیشن نے عدالت عظمیٰ کی دبا کر توہین کی۔ عام طور پر ایسے معاملات پر فوری طور پر عدالت توہین عدالت کی کارروائی کرتی ہے لیکن چیف جسٹس آف پاکستان کچھ اندرونی اختلافات اور کچھ طاقت کے تمام مراکز کے غیر فطری اتحاد کے سامنے خاموش ہو گئے۔ ان حالات میں حکمت و بصیرت کا تقاضہ یہی تھا کہ موزوں وقت کا انتظار کیا جائے۔ چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطاء بندیال جن کی ریٹائرمنٹ اب صرف 14 یوم کے فاصلے پر ہے، انہوں نے ملازمت سے سبکدوش ہونے سے پہلے ان حکم عدولیوں کی بھی درستگی کرنی ہے۔ اس سلسلے میں وقت کم اور مقابلہ سخت تو ضرور ہے لیکن ایسا دکھائی دیتا ہے کہ چیف جسٹس اپنا ہوم ورک کئے بیٹھے ہیں۔

چیف جسٹس عمر عطاء بندیال پہلی قسط کے طور پر 14 مئی کی حکم عدولی کے ساتھ اگلے انتخابات کے حوالے سے بھی الیکشن کمیشن کی پھونک نکال چکے ہیں۔ جو بے بسی کسی وقت عدالت عظمیٰ سے 14 مئی کے انتخابات کے حوالے سے نتھی تھی، وہ الیکشن کمیشن کے ماتھے پر عیاں ہے۔ عدالت عظمیٰ میں الیکشن کمیشن کی 14 مئی کی فیصلے پر نظر ثانی کیس کی سماعت میں الیکشن کمیشن کے وکیل کے پاس عدالت کے اس سوال کا کوئی جواب نہیں تھا کہ جس فیصلے کو مانا ہی نہیں گیا اس میں کیا غلطی تھی؟ عدالت نے اس درخواست کو بہت موزوں ٹائم پر سماعت کیلئے رکھا اور نظر ثانی کی درخواست انتہائی الیکشن کمیشن کیلئے شرمندگی کے احساس کے ساتھ خارج کردی۔ بات اب صرف یہیں تک محدود نہیں رہے گی، بلکہ عدالت عظمیٰ اس فیصلے کے اختتامی کلمات میں الیکشن کمیشن پر یہ بھی واضح کر گئی کہ آئین کے تحت انتخابات حکومت کی رخصتی کے بعد 90 روز میں ہی کرانے کے علاوہ کوئی دوسری چوائس نہیں۔ الیکشن کمیشن جو اپنا یہ ذہن بنا کر بیٹھا ہوا تھا کہ اسے پی ڈی ایم کی حکومت جاتے جاتے نئی حلقہ بندیوں کا جو نسخہ تھما کر گئی ہے، وہ اسی پر چلتے ہوئے عام انتخابات کو کم از کم 2024ء کی پہلی سہ ماہی تک تو موخر کر ہی دے گا۔ حالیہ عدالتی فیصلے کے بعد اب الیکشن کمیشن کو پی ڈی ایم کے نسخے پر عمل درامد کرنا بہت مشکل ہو جائے گا۔ بلکہ اگر یہ کہا جائے تو زیادہ مناسب ہوگا کہ اس سکرپٹ کی ڈکٹیشن دینے والے بھی اب اس کے ساتھ کھڑے نہیں ہوں گے اور الیکشن کمیشن تنہا رہ جائے گا۔ الیکشن کمیشن کو اب عدالت عظمیٰ میں یا تو کوئی ائینی جواز فراہم کرنا ہوگا کہ وہ کن آئینی شقوں کی بنیادوں پر انتخابات کے انعقاد میں تاخیر برت رہا ہے؟ یا پھر اسے خاموشی سے 90 روز کے اندر اندر عام انتخابات کرانا ہوں گے۔

پاکستان کی تاریخ میں ستمبر کو ستمگر سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ یہ ستمبر وارد ہو چکا ہے اس ستمبر میں عدالت عظمی میں مہینے کے عین وسط میں بڑی تبدیلی یہ واقع ہو رہی ہے کہ عدالتی کمان جسٹس عمر عطاء بندیال سے جسٹس قاضی فائز عیسی کے ہاتھ میں چلی جائے گی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ بہت سے حلقے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سے یہ امیدیں وابستہ کئے بیٹھے ہیں کہ وہ جب چیف جسٹس کے عہدے پر براجمان ہوں گے تو انہیں شائد کوئی ریلیف مل جائے گا۔ یہ توقعات نئے چیف جسٹس سے وابستہ کرنے والے احمقوں کی جنت میں رہ رہے ہیں۔ اس لئے کہ قاضی فائز عیسیٰ کے بارے میں یہ بات مشہور ہے کہ وہ اپنے فیصلوں میں آئین سے باہر نہیں نکلتے۔ اس لئے اگر کسی کو کوئی خوش فہمی ہے تو یہ اس کی نادانی ہوگی۔ دوسری طرف ستمبر کے 14 ایام پی ڈی ایم کی قیادت کے لئے ستمگر بن سکتے ہیں۔ چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطاء بندیال کے سامنے نیب قوانین میں جو تبدیلیاں پی ڈی ایم کی حکومت نے اپنے لوگوں کو بچانے کے لئے کی ہیں، اس مقدمے کی سماعت جاری ہے۔ چیف جسٹس یہ بھی واضح کر چکے ہیں کہ اپنی ملازمت سے سبکدوشی سے پہلے وہ اس مقدمے کا فیصلہ کر کے جائیں گے۔

یاد رہے کہ شہباز حکومت نے اقتدار میں آتے ہی چند یوم کے اندر ہی نیب قوانین میں ایسی ترامیم کیں کہ ان سمیت کل کے مجرم، محترم ہو گئے، اور باعزت بری بھی ہو چکے ہیں۔

سپریم کورٹ آف پاکستان نے نیب قوانین میں ہونے والی ترامیم کو منسوخ کر دیا تو پھر جو محترم بنے تھے وہ پھر سے مجرموں کی فہرست میں آ کھڑے ہوں گے۔ گویا پی ڈی ایم کی ساری تپسیا غارت جائے گی۔ ستمبر یہ اس فیصلے کی صورت میں پی ڈی ایم کے لئے ستمگر ثابت ہو سکتا ہے۔ اس کی ستم گری یہ کمال بھی دکھا سکتی ہے کہ سپریم کورٹ کے سامنے نئی حلقہ بندیاں جس کا سہارا الیکشن کمیشن نے انتخابات کے التوا کے لئے لے رکھا ہے کو بھی چیلنج کر دیا گیا ہے۔ نئی حلقہ بندیوں کا جو فیصلہ کیا گیا وہ آئینی اعتبار سے بہت کمزور اس لئے ہے کہ اس میں دو صوبوں کے منتخب وزراء اعلی موجود نہیں تھے جبکہ سندھ کے وزیر اعلی مراد علی شاہ یہ بات کہہ چکے ہیں کہ وہ نئی حلقہ بندیوں سے اتفاق نہیں کرتے۔ اس لئے یہ مقدمہ بھی جب عدالت کے سامنے آئے گا تو غالب امکان یہی ہے کہ حلقہ بندیوں کی یہ بیساکھی بھی الیکشن کمیشن کو میسر نہیں رہے گی، اور وہ تنہا ہو سکتا ہے جو ستمبر کا بڑا ستم ہوگا۔ ستمبر کا ایک ستم پریکٹس اینڈ پروسیجر بل کے حوالے سے بھی سپریم کورٹ کے سامنے آسکتا ہے۔ اس مقدمے کے فیصلے کے لئے عدالت عظمی کو کچھ زیادہ وقت بھی درکار نہیں۔

ماہرین کے مطابق یہ فیصلہ اسی وقت ہو جائے گا، جب صدر مملکت عارف علوی عدالت میں صرف یہ گواہی دیں گے کہ انہوں نے اس بل پر دستخط نہیں کئے تو یہ بل منسوخ ہو جائے گا۔ اس بل کی منسوخی سے ستمبر زیادہ ستمگر ہوجائے گا۔ قصہ مختصر یہ کہ ستمبر کے یہ 14 ایام بہت اہمیت کے حامل ہیں۔ یہ ایام عوام کے لئے صرف اسی صورت میں ستمگر ثابت ہو سکتے ہیں کہ عدالت عظمیٰ اس پر کوئی فیصلہ نہ کر سکے۔ بصورت دیگر اگر موجودہ چیف جسٹس جسٹس عمر عطاء بندیال ان مقدمات پر توقعات کے مطابق فیصلے کر گئے تو پھر وہ خود نہ صرف عوام کی نظروں میں سرخرو ہوجائیں گے بلکہ ستمبر صرف اس مخصوص اقلیت کے لئے ستمگر ثابت ہوگا جو اس ملک کے وسائل کو شیر مادر کی طرح ڈکار گئے۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button