سیاستکالم

عمران خان کا باہر جانا اور جیل سے آنا دونوں ہی مشکل

ابراہیم خان

توقعات کے عین مطابق پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین اور سابق وزیراعظم عمران خان کو عدالت عالیہ اسلام آباد نے توشہ خانہ کیس میں بری کر دیا۔ عدالت عالیہ نے ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج اسلام آباد ہمایون دلاور کی طرف سے سابق وزیراعظم کو دی گئی سزا کو معطل کرتے ہوئے عمران خان کو اس کیس میں رہا کرنے کا حکم بھی دے دیا۔

عمران خان کی اس رہائی کے بارے میں مختصر فیصلہ جاری ہوا تو خیبر پختونخوا سے عمران خان کے چاہنے والوں نے قرب مکانی و قرب زمانی دونوں ہی وجوہات کی بنیاد پر اٹک جیل کا رخ کیا تاکہ وہاں کپتان کی رہائی کے مناظر نہ صرف اپنی آنکھوں سے دیکھ سکیں بلکہ وہاں جشن بھی منا سکیں۔ کپتان کے چاہنے والے یہ سادہ لوح کارکن اٹک جیل کے باہر پہنچے ان کے ہاتھ میں ہار اور مٹھائیاں بھی تھی، لیکن افسوس کہ ان کی امیدیں بر نہیں آئیں۔ نہ تو کپتان کو رہائی ملی نہ ہی کوئی جشن ہوا، الٹا جشن کی آس میں جانے والوں کو پنجاب پولیس گرفتار کر کے لے گئی۔ کپتان کی گرفتاری برقرار رکھنے کے بارے میں پہلے ہی کہا جا رہا تھا ان کو رہائی اس وجہ سے نہیں ملے گی کہ کپتان کے خلاف قائم بیشتر مقدمات میں سے 13 مقدمات ایسے ہیں جن میں کپتان کی 25 روزہ اسیری کے دوران عدالت میں تاریخ لگی لیکن حکومت نے کپتان کو ان تاریخوں پر جانے نہیں دیا۔ اس عدم پیشی کے بارے میں عدالتوں نے استفسار کیا تو عمران خان کے وکلاء نے انہیں بتایا کہ وہ اٹک جیل میں پابند سلاسل ہیں لیکن اس کے باوجود مختلف کیسز میں کپتان کی عدم حاضری کی وجہ سے ان کی ضمانت منسوخ کر دی گئی۔

پاکستان تحریک انصاف کے مطابق ان کے چیئرمین عمران خان کے خلاف مجموعی طور پر 180 مختلف مقدمات درج ہیں۔ ان مقدمات میں سے 13 مقدمے ایسے ہیں جن میں عمران خان کی ضمانت منسوخ ہو چکی ہے۔ عمران خان کو ان مقدمات میں انہیں کسی بھی وقت گرفتار کیا جا سکتا ہے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے منگل کو تقریباً دو گھنٹے تاخیر سے عمران خان کی سزا معطل کرنے کا حکم سنا دیا تو ساتھ ہی اٹک جیل کے حکام کو ہدایت کردی گئی کہ ملزم عمران خان کو سائفر کیس میں گرفتاری کرلی جائے۔ دوسری طرف عدالت عالیہ اسلام آباد نے عمران خان کی رہائی کے حکم کے ساتھ یہ بھی بتا دیا کہ عدالت جلد اس کیس کا تفصیلی فیصلہ بھی جاری کر دے گی۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے مختصر فیصلے میں کہا کہ اس حکم نامے کی وجوہات تفصیلی فیصلے میں دی جائیں گی۔ اس مقدمے کی سماعت پیر کے روز مکمل ہو چکی تھی جس کے بعد عدالت نے فیصلہ محفوظ کر لیا تھا۔ قبل ازیں توشہ خانہ کیس میں ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج اسلام آباد ہمایون دلاور نے انصاف کے تقاضوں کو پورا کئے بغیر فیصلہ دیا تھا۔ مقدمے کی سماعت میں ان غلطیوں کی وجہ سے یہ تاثر بہت عام ہو چکا تھا کہ جج ہمایون دلاور کا دیا گیا فیصلہ ایک پیشی میں ختم ہو جائے گا۔ یہ تاثر درست ثابت نہیں ہوا، عمران خان کی گرفتاری کے 25 دنوں کے بعد اسلام آباد ہائی کورٹ نے اس فیصلے میں دی گئی سزا کو معطل کر کے انہیں رہا کر دیا۔ چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ عامر فاروق اور جسٹس طارق محمود جہانگیری پر مشتمل دو رکنی بینچ نے فیصلہ سنایا۔

عدالت عالیہ اسلام آباد کے اس فیصلے کے باوجود تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کی رہائی ابھی بہت دور دکھائی دے رہی ہے۔ نگران حکومت، جس کے بارے میں یہ بات کہی جا رہی تھی کہ وہ شہباز حکومت کی پالیسیوں کا تسلسل جاری رکھے گی، وہ پاکستان تحریک انصاف کے قائد کے خلاف اپنی پیشرو حکومت سے بھی دو ہاتھ آگے جاتی دکھائی دے رہی ہے۔ عمران خان کو رہائی پانے کے لئے اگر ان کے خلاف مزید مقدمات قائم نہ ہوئے یا ان کی مزید ضمانتیں خارج نہ ہوئیں تو پھر بھی انہیں اب مزید ایک درجن مقدمات میں اپنی ضمانتیں کروانے کے بعد ہی رہائی نصیب ہو گی۔

توشہ خانہ کیس میں سپریم کورٹ کی طرف سے بھی ایک حکم نامہ عمران خان کے حق میں جاری ہو چکا تھا اس کے باوجود بھی اسلام آباد ہائی کورٹ کا فیصلہ جاری ہونے میں خاصی تاخیر دیکھی گئی۔ مستقبل میں بھی یہ تاخیر اسی طرح جاری و ساری رہے گی۔ عدالتیں کپتان کے مقدمات کا فیصلہ کرنے میں جس قدر تاخیر برتیں گی ان کی رہائی اسی قدر دور ہوتی چلی جائے گی۔ توشہ خانہ کیس میں اسلام آباد ہائی کورٹ میں بھی یہی تاخیری حربے برتے گئے، جو اب مزید کیسز میں بھی دیکھے جائیں گے۔ ان کیسز میں اب کبھی جج خیر حاضر ہو سکتے ہیں، تو کبھی وکیل بیمار پڑ سکتے ہیں۔ یہ اس قسم کے تاخیری حربے ہیں جو عدالتی نظام میں ایک حکمت عملی کا حصہ بن چکے ہیں۔ اس قسم کی تاخیر پر متاثرہ فریق صرف جز بز ہو کر رہ جاتا ہے اور احتجاج بھی کھل کر نہیں کر سکتا۔ اس لئے کہ بیماری سستی ایسے امور ہیں جن پر شک تو کیا جا سکتا ہے لیکن ان پر زیادہ کھل کر تنقید نہیں کی جا سکتی۔ بہرحال اس مقدمے نے ایک طرز ڈال دی ہے اور عمران خان کے اگلے مقدموں میں بھی عدالتوں کا یہی طرز عمل جاری رہے گا۔ یہ طرز عمل اسی طرح جاری رہے گا۔ جیسے ہر مقدمے کے بعد وہ فریق جس کے حق میں فیصلہ آتا ہے وہ اسے انصاف کی فتح قرار دیتا ہے جبکہ مخالفین اس پر تنقید کرتے ہیں۔ توشہ خانہ کیس میں البتہ تھوڑا سا فرق یہ ہوا کہ پاکستان تحریک انصاف ابھی اپنا مکمل رد عمل دینے سے ہچکچار رہی ہے، جبکہ اس فیصلے پر عدم اطمینان کرنے والے زیادہ کھل کر اپنا موقف بیان کر رہے ہیں۔ سابق وزیراعظم میاں شہباز شریف نے توشہ خانہ کیس میں سزا معطلی پر اپنے فوری ردعمل میں کہا کہ ‎لاڈلے کی سزا معطل ہوئی ہے ختم نہیں ہوئی۔ ان کا کہنا تھا کہ ‎فیصلہ آنے سے پہلے ہی سب کو پتہ ہو کہ فیصلہ کیا ہوگا تو یہ نظام عدل کے لئے لمحہ فکریہ ہونا چاہیے۔ یہ عجیب مقدمہ تھا جس میں ‎اعلی عدلیہ سے واضح پیغام مل جائے تو ماتحت عدالت یہ نہ کرے تو اور کیا کرے؟ جہاں ملک کا چیف جسٹس "گُڈ ٹو سی یو” اور "وشنگ یو گڈ لک” کا پیغام  اسلام آباد ہائی کورٹ کو دے رہا ہو تو یہ نظام عدل کے لئے لمحہ فکریہ ہونا چاہیے۔ اعلی عدلیہ سے واضح پیغام مل جائے تو ماتحت عدالت کیا کرسکتی ہے۔

سابق وزیراعظم شہباز شریف سے اسی قسم کی تنقید کی توقع تھی۔ لیکن اصل بات یہ ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے سے سر دست پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ کی نااہلی بھی معطل ہو گئی ہے۔ جس کا مطلب یہ ہوا کہ وہ لیول پلیئنگ فیلڈ جو عمران خان کی گرفتاری سے مسلم لیگ کو ملی تھی وہ ایک دفعہ پھر ان کے ہاتھ سے چلی گئی ہے۔ سیاسی قوتوں کے لئے تو یہ صورتحال بھی پریشان کن ہے کہ عمران خان پھر سے انتخابات کے لئے اہل ہو گئے ہیں۔ البتہ وہ قوتیں جو عمران خان کی بیرونی دنیا سے رابطے کو منقطع رکھنا چاہتی ہیں وہ اب بھی اطمینان سے ہیں کیونکہ عمران خان کی رہائی فی الحال دکھائی نہیں دے رہی۔ توشہ خانہ کیس کے فیصلے کے فوری بعد انسداد دہشت گردی کی ایک عدالت کے جج کے حکم پرعمران خان کو جیل میں رکھا جائے گا۔ یہ خصوصی عدالت سائفر کے مقدمے کی سماعت کے لئے بنائی گئی ہے جس میں شاہ محمود قریشی کے خلاف پہلے ہی مقدمہ قائم ہے۔ اب نئے مقدمات جوں کی رفتار سے چلیں گے۔ یہ مقدمات اس وقت تک ختم نہیں ہوں گے جب تک کپتان بیرون ملک بھجوائے جانے کی پیشکش قبول نہیں کرتے۔ اگر عمران خان نے بیرون ملک بھجوانے کی پیشکش قبول کر لی تو پھر ان کے مقدمات بھی ختم ہو جائیں گے اور ان کی سیاست بھی ختم ہو جائے گی۔ اس بناء پر کپتان کے قریبی حلقے یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ کپتان کا جس طرح باہر جانا مشکل ہے اسی طرح ان کا ان مقدمات اور جیل سے بھی باہر آنا مشکل دکھائی دے رہا ہے۔

 

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button