مائے ری: مجھے شادی کو فضول بنا کر پیش کرنے پر اعتراض ہے
حمیراعلیم
اے آر وائے کا ڈرامہ مائے ری کم عمری میں شادی کے نقصانات اور بچیوں پر ظلم کے بارے میں ہے۔ اس ڈرامے میں نویں دسویں کے بچوں کی شادی کر دی جاتی ہے اور انہیں گھر کی ذمہ داریوں اور کام کے بوجھ تلے دبا دیا جاتا ہے جس کی وجہ سے بچی پریشان ہو جاتی ہے۔
اس ڈرامے کے کچھ ڈائیلاگز ایسے ہیں جو شادی کو ایک فضول چیز اور تعلیم کو زندگی کا محور ثابت کرتے ہیں۔ مجھے تعلیم کی افادیت و اہمیت پر کوئی شک نہیں لیکن شادی کو فضول بنا کر پیش کرنے پر سخت اعتراض ہے۔ اسی ڈرامے میں میٹرک کے طلباء اور طالبات ایک دوسرے سے محبت کرتے ایک دوسرے سے ملتے جلتے دکھائے گئے ہیں اور اس دوستی کو بہت نارمل اور عام سی چیز دکھایا گیا ہے جب کہ قرآن نے نا محرم سے دوستی، اسے دیکھنے، چھونے، حتی کہ نرمی سے بات کرنے سے بھی منع کیا ہے اور نکاح کو عزت و دین کے لیے محصن یعنی قلعہ قرار دیا ہے۔
2023 میں بھی بے شمار ایسی مثالیں ہیں جن میں ہم دیکھ سکتے ہیں کہ لوگوں نے اپنے ٹین ایج بچوں کی شادیاں کر دیں اور وہ اپنی تعلیم بھی جاری رکھتے ہیں۔ میمن اور پٹھان برادری میں ایسا ہی ہوتا ہے۔ میں اپنے گھر کی مثال دوں گی تقریبا نصف صدی پہلے میری خالہ ساس کی شادی آٹھویں کے بعد کر دی گئی۔ وہ ڈاو میڈیکل کالج کی پروفیسر ریٹائرڈ ہوئیں ور ان کے شوہر بینکر تھے۔ ان دونوں کی ساری تعلیم شادی کے بعد ہی کی تھی۔ نہ صرف تعلیم بلکہ انہوں نے گھر اور دو بیٹوں کو بھی سنبھالا۔ اگر نصف صدی پہلے ایسا ممکن تھا تو آج کیوں نہیں؟
میں خود بھی شادی کے بعد کافی سارے کورسز کر چکی ہوں گھر کے کام، بچوں کو پڑھانا، گروسری کرنا سب میری ذمہ داری ہے لیکن اگر شوق ہو تو کچھ بھی ناممکن نہیں ہوتا۔ ہاں ڈرامے میں دکھایا جانے والا سسرالی رویہ اس شوق کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہو سکتا ہے۔ ایسے جاہل اس صدی میں بھی پائے جاتے ہیں جیسے کہ عینی کی دادی ہیں۔ اس طرح کے لوگوں سے نمٹنے کا واحد حل اسلامی طرز زندگی ہے جہاں جوائنٹ فیملی کا کوئی تصور ہی نہیں ہے۔
شادی کے بعد کپل چاہے ایک اسٹوڈیو اپارٹمنٹ میں رپے یا ایک کمرے میں انہیں الگ ہی رہنا چاہیے مگر یہ ہمارے معاشرے میں ممکن نہیں کیونکہ لوگ اسے اسلامی رخصت، سنت یا عورت کا حق نہیں مانتے بلکہ اس کو مرد اپنے گھر والوں سے الگ کرنا سمجھتے ہیں اور ایسی لڑکی سے شادی ہی نہیں کرنا چاہتے اور اگر عورت شادی کے بعد الگ رہنا چاہے تو اسے الگ گھر دینے کی بجائے گھر سے نکال ہی دیا جاتا ہے حالانکہ چار شادیوں کی طرح یہ بھی ایک سنت ہے کہ بیوی کو الگ رہائش مہیا کی جائے۔
ڈرامے فلمیں اور دیگر شوبز پروگرامز عوامی رائے بنانے میں ایک اہم فیکٹر ہیں۔ اس لیے رائٹرز، جرنلسٹس اور پروڈیوسر ڈائریکٹرز کو ایسے ایشوز پر بات کرنے سے پہلے تحقیق کرنی چاہیے اور حقیقت کو ہی پیش کرنا چاہیے۔