تعلیمکالم

تعلیمی اداروں میں طلباء غلط مطالبات ماننے پر مجبور کیوں؟

حمیراعلیم

اسکول یا یونیورسٹی اساتذہ جو انبیاء کے وارث ہیں ان کا کام بچوں کو علم دینا اور ان کی تربیت کرنا ہے لیکن ان میں سے بعض بھیڑیے بن چکے ہیں۔ بچوں کا جنسی استحصال ان کی عادت ثانیہ بن چکی ہے۔ مدارس اور مساجد کے اساتذہ کے واقعات تو بکثرت رپورٹ کیے جاتے ہیں ہاں اسکولز، کالجز، یونیورسٹیز میں ایسے جرائم کی خبریں خال خال رپورٹ کی جاتی ہیں۔ پشاور یونیورسٹی کے شعبہ اسلامیات و عربی کے ہیڈ ، بلوچستان یونیورسٹی کے پروفیسرز اور اب بہاولپور یونیورسٹی کا اسٹاف ، انٹرنیشنل یونیورسٹی کا ہاسٹل ہو یا کسی گورنمنٹ کالج کا ہاسٹل یا نرسنگ اسکولزکیا لڑکیاں کیا لڑکے کوئی بھی ان درندوں کے ہاتھوں سے محفوظ نہیں۔

اسٹوڈنٹس جن میں سے بیشتر کے اہل خانہ اپنا پیٹ کاٹ کر ان کے تعلیمی اخراجات پورے کر رہے ہوتے ہیں ان کے لیے ایک ایک نمبر بھی قیمتی ہوتا ہے اور جب انہیں یہ دھمکی لگائی جاتی ہے کہ اگر انہوں نے اساتذہ کی خواہش پوری نہ کی تو انہیں فیل کر دیا جائے گا تو وہ بے چارے کسی بھی حد تک گرنے کو تیار ہو جاتے ہیں اور جو ایسا نہ کرے فیل ہونا تو اس کا مقدر ٹھہرتا ہی ہے۔ باتھ روم کے استعمال کے دوران بنائی جانے والی ویڈیوز کے ذریعے اسے بلیک میل کر کے پھر اس سے وہ کچھ بھی کروا لیا جاتا ہے جو اس نے تصور بھی نہیں کیا ہوتا۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ تعلیمی اداروں کو اسی مقصد کے لیے استعمال کیا جائے جس کے لیے ان کا قیام عمل میں لایا گیا ہے لیکن یہ کیسے ممکن ہو گا؟

اگر دیکھا جائے تو ایڈلٹ اسٹف، ڈارک ویب اور دیگر سائٹس بھی اس کی ایک وجہ ہے۔ اگر کسی چیز پر پابندی لگانی ہی ہے تو ان سب پر لگائیے کیونکہ جب ایک بچہ بھی اپنے موبائل پر ایسے اشتہارات اور سائٹس کو باآسانی اپروچ کر سکتا ہے تو کیا ہم یہ توقع کر سکتے ہیں کہ وہ اپنے جذبات پر قابو رکھ پائے گا؟

کوئی اسلامی عالم، ملاء یا طالبان علم کبھی بھی دینی بیان پڑھ سن یا دیکھ کر ریپ نہیں کرتابلکہ ایسا ایڈلٹ اسٹف ہی اسے جانور بننے پر آمادہ کر دیتا ہے پھر وہ اپنی ہی بہن، بیٹی، بہو، بھتیجی ،یا بیٹے کو بھی نہیں بخشتا خواہ اس کی عمر دو سال ہی کیوں نہ ہو۔

کراچی میں سرعام برہنہ ہو کر راہ چلتی لڑکی پر جنسی حملہ کرنے والا نہ تو حلیے سے کوئی مولوی لگ رہا تھا نہ ہی وہ کسی درس سے اٹھ کر آیا تھا اور لڑکی بھی برقعے میں تھی پھر اس نے ایسا کیوں کیا؟؟؟؟ لڑکی کے لباس کا ذکر اس لیے کیا ہے کیونکہ اکثر اعتراض کیا جاتا ہے کہ لڑکیوں کے نامناسب لباس کی وجہ سے انہیں ریپ کیا جاتا ہے حالانکہ ایسا ہوتا تو کوئی تین سے نو سالہ بچی یا بچہ ریپ نہ ہوتا۔

ایک مطالبہ یہ بھی کیا جا رہا ہے کہ خواتین کے لیے الگ تعلیمی ادارے بنائے جائیں تو عرض ہے کہ ایسے کالجز اور یونیورسٹیز کی ہر صوبے میں بھرمار ہے جو صرف خواتین کے لیے ہیں لیکن وہاں بھی یہ دھندہ ہو رہاہے۔ایف سیون ٹو کالج کا واقعہ کچھ زیادہ پرانا نہیں۔خواتین کے تعلیمی اداروں اور ہاسٹلز سے بھی لڑکیوں کو سپلائی کیا جاتا ہے۔ توثابت ہوا الگ تعلیمی ادارے بھی اس مسئلے کا حل نہیں۔

حقیقی حل چاہتے ہیں تو قرآن حدیث کو رٹنے اور نمبر لینے کے لیے شامل نصاب نہ کیجئے بلکہ علماء ہائر کر کے بچوں کو اسلام کی تعلیم یوں دیجئے کہ وہ اس پر عمل کریں اور خوف خدا رکھتے ہوئے برائی سے دور رہیں۔ یہ کام صرف تعلیمی اداروں میں ہی نہ ہو بلکہ گھروں میں والدین بھی اس بات کا اہتمام کریں۔

حکومت ایڈلٹ اسٹف پر مکمل پابندی عائد کرے۔ نہ کوئی لٹریچر نہ ہی سائٹ ہر طرح کی برائی پر کنٹرول کر کے ہی ہم اپنے بچوں اور بچیوں کو محفوظ رکھ سکتے ہیں۔ اس لیے ارباب اقتدار واختیار کو اس معاملے میں اقدامات کرنے کے لیے سنجیدگی سے سوچنا ہو گا۔

نوٹ۔ ادارے کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا لازمی نہیں۔ 

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button