ابراہیم خان
پاکستانی سیاست میں اخلاقیات کا فقدان تو پہلے سے ہی موجود تھا۔ اگر اخلاقیات کا پالن کیا جاتا تو 1965ء کے صدارتی انتخابات میں ایک فوجی آمر کبھی مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کے مقابلے میں صدارتی الیکشن لڑنے کی جرات نہ کرتا۔مگر یہاں تو بے شرمی کا وہ مظاہرہ کیا گیا کہ نہ صرف مادر ملت کے خلاف صدارتی انتخاب لڑا گیا بلکہ اپنی کامیابی کیلئے وہ تمام غیر اخلاقی حربے اپنائے گئے جو ممنوع ہیں۔
تحریک پاکستان میں بانی پاکستان محمد علی جناح کے شانہ بشانہ کام کرنے والی مادر ملت، اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ایک فوجی آمر سے شکست کھا کر اس قدر دلبرداشتہ ہوئیں کہ محض دو برس کے عرصے میں9 جولائی1967ء کو خالق حقیقی سے جا ملیں۔ ان کی موت آج تک معمہ ہے ان کے اہل خانہ نے مطالبہ کیا تھا کہ مادر ملت کو مارا گیا ہے اس لئے ان کی موت کی تحقیقات کرائی جائیں۔ حکومت وقت نے اس مطالبے کو دبا دیا اور پھر وقت کی دھول کی دبیز تہہ اس مطالبے کو دبا گئی۔ ایسی ایسی قیامتیں گزرنے کے باوجود پرانے لوگ کہتے ہیں کہ ماضی میں کچھ اخلاقیات کا بھرم ہوا کرتا تھا۔ چلیں اس بحث سے قطع نظر جو تھوڑا بہت اخلاقی بھرم تھا وہ بھی اب اعلانیہ اور غیر اعلانیہ طور پر رخصت ہو چکا ہے۔
پچھلے ایک برس سے زائد کے واقعات اٹھا کر دیکھیں تو واقعی لگتا ہے کہ اب نیا پاکستان بن چکا ہے۔ اس نئے پاکستان میں بہت سے نئے کارنامے ہوگئے۔ ملک میں پہلی بار ایک منتخب وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوگئی۔ حکومت کا مل کر تختہ الٹنے والا تیرہ جماعتی اتحاد مختلف نشیب و فراز سے گزرنے کے باوجود ابھی تک برقرار ہے۔ ایسا بے نظیر اتحاد ماضی میں تو نہیں دیکھا۔ عام طور پر ماضی میں ایسے اتحاد نوابزادہ نصر اللہ خان مرحوم کی قیادت میں بنتے تھے۔ یہ اتحاد حکومت کے گرتے ہی ختم ہو جایا کرتے تھے بلکہ تتر بتر ہو جاتے تھے۔ اس بار یہ انہونی ہوئی ہے کہ نہ صرف اتحاد برقرار ہے بلکہ اتحادیوں میں ازدواجی نوک جھونک جیسی چھیڑا چھاڑی کے ساتھ پیار بڑھ رہا ہے۔ یہ پیار بڑھنا بھی چاہئے کہ اس اتحاد نے بڑی "کامیابی” کے ساتھ سپریم کورٹ جیسے اعلیٰ ترین ملکی عدالت کا حکم جوتی کی نوک پر رکھ دیا۔ پاکستان کی تاریخ میں سپریم کورٹ کے خلاف ہونے والی اس محاذ آرائی کو بہت شدت سے یاد رکھا جائے گا۔ اس دور میں سب کچھ انوکھا ہوگیا جو تھوڑی بہت کسر تھی وہ 9 مئی کے واقعات نے پوری کر دی۔
سانحہ 9 مئی تو سقوط ڈھاکہ سے بھی بڑا سانحہ بن گیا۔ سارے طور طریقے ہی نئے ہوگئے، ملک کے اندر کیا ملک سے باہر والوں نے بھی پاکستان کے ساتھ کچھ اچھا سلوک نہیں کیا۔ عالمی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف کو ہی لیجئے، بقول وزیراعظم شہباز شریف انہوں نے قرضے کی قسط دینے کیلئے ناکوں لکیریں نکلوا دیں حالانکہ ماضی میں کبھی آئی ایم ایف نے اتنی گندی حرکت نہیں کی تھی۔ ماضی میں حکومتیں اپنی مدت پوری کرنے کے قریب ہوتیں تو پیشگی پوری قوم کو معلوم ہوجاتا تھا حکومت کس تاریخ کو ختم ہو رہی ہے؟ مگر اس دفعہ باخبر حلقے یہاں تک کہہ رہے ہیں کہ خود وزیر اعظم کو معلوم نہیں کہ ان کی حکومت کس تاریخ کو رخصت ہوگی؟
حکومت کی مدت 12 اگست کو ختم ہو رہی ہے لیکن اس کے باوجود حکومت جانے کے معاملے میں کوئی قطعیت نہیں۔
نگران وزیراعظم کے بارے میں بھی تاحال کوئی فیصلہ نہیں ہوسکا۔ نگران وزیراعظم کی نامزدگی آئین کے تحت وزیر اعظم اپوزیشن لیڈر کی مشاورت سے کرنے کے پابند ہیں۔ عام طور پر ماضی میں حکومت کو اس مرحلے کو سر کرنے کی بہت فکر ہوتی تھی لیکن اس دفعہ حکومت کو ایسی کوئی فکر لاحق نہیں۔ اس بے فکری کی سہولت تو خود تحریک انصاف نے قومی اسمبلی سے مستعفی ہو کر موجودہ حکومت کو فراہم کی تھی۔حکومت راجہ ریاض کو پاکستان تحریک انصاف کی ٹوپی اوڑھا کر اپوزیشن لیڈر کے منصب پر براجمان کئے ہوئے ہے۔ راجہ ریاض وزیراعظم شہباز شریف کی طرف سے آنے والے نام کو فوری طور پر قبول کرکے مفاہمت کی نئی داستان رقم کریں گے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ اس بار خود وزیراعظم راجہ ریاض کو ایک نام پہلے سے ایک چٹھی میں لکھ کر دے دیں اور وہ یہ نام باضابطہ طور پر اپنی طرف سے وزیراعظم کو پیش کریں اور وزیراعظم اس نام کو قبول کر کے مفاہمت کا ایک نیا ریکارڈ بنائیں کہ اپوزیشن لیڈر کا دیا ہوا نام فائنل کر لیا گیا۔ اپوزیشن لیڈر صرف یہی نہیں کریں گے بلکہ وہ اس نام کو فائنل کرنے کی عرضی کے ساتھ ساتھ مسلم لیگ نون سے مطالبہ کر لیں گے کہ مسلم لیگ انہیں اگلے عام انتخابات میں پارٹی ٹکٹ دلوادے۔ اس بارے میں وزیر دفاع خواجہ اصف یہ بات کہہ چکے ہیں کہ اگر راجہ ریاض نے مسلم لیگ کا ٹکٹ مانگنے کی درخواست کی تو ہم انہیں لازمی ٹکٹ دیں گے۔ اس اعتبار سے یہ اپوزیشن لیڈر کا تجربہ بھی ایک نیا تجربہ ہے۔
نئے تجربات کا یہ سلسلہ یہاں پر رکتا نہیں ہے بلکہ اس بار نگران حکومت کے ہاتھ بھی اس قدر مضبوط کئے جا رہے ہیں کہ وہ صرف انتخاب کے انعقاد تک محدود نہ رہیں، بلکہ دیگر ایسے معاملات جو صرف منتخب حکومت کے ہی کرنے کے ہوتے ہیں ان کے بارے میں نگرانوں کو بھی اب بااختیار بنا دیا گیا ہے کہ وہ بھی منتخب حکومت کے برابر حق استعمال کریں۔
نگران حکومت کو قوی تر کرنے کے لئے حال ہی میں پاکستانی پارلیمان کے مشترکہ اجلاس نے الیکشن ایکٹ ترمیمی بل 2023ء منظورکرلیا۔ نئےقانون کے تحت نگران حکومت کو جاری معاشی منصوبوں اور بین الاقوامی معاہدوں پر عمل درآمد کا اختیار حاصل ہو گیا ہے۔ قومی اسمبلی کی مدت پوری ہونے میں چند روز باقی ہیں۔ اسی لئے انتخابات ایکٹ 2017ء میں نئی ترامیم کر کے انتخابات بل 2023 کو پارلیمنٹ نے منظور کر لیا۔ یہ بل اب صدر مملکت کے پاس فوری منظوری کیلئے بھیجا گیا ہے اور حکومت کا دعویٰ ہے کہ اگر صدر اس پر 9 اگست تک دستخط نہیں کرتے تو یہ از خود لاگو ہو جائے گا۔ یہ بل دستخط ہو یا نہ ہو، قانون کیا کہتا ہے اب اسے بھی چھوڑئیے۔ ڈیڑھ سالہ حکومتی کارکردگی یہ کہتی ہے کہ ہو گا وہی جو حکومت کہتی ہے اور حکومت کہہ رہی ہے کہ یہ قانون لاگو ہو جائے گا، تو یہ نئے طور طریقے کے تحت لاگو ہو گا چاہے کچھ بھی ہو جائے۔
الیکشن ایکٹ میں ترامیم کے مطابق جاری معاشی منصوبوں اور بین الاقوامی معاہدوں پر عمل درآمد کا اختیار اب نگران حکومت کو مل جائے گا۔ نئے قانون کے مطابق نگران حکومت بااختیار ہو گی کہ وہ نجکاری کمیشن ایکٹ، انٹر گورنمنٹل پرائیویٹائزیشن ایکٹ اور پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے تحت چلنے والے منصوبوں بارے فیصلے کرسکے۔
انتخابات سے متعلق کی گئی ترامیم کے تحت قومی اور صوبائی اسمبلی کی نشستوں کے لیے انتخاب میں فریقین کے ووٹوں کی تعداد میں بالترتیب آٹھ اور چار ہزار سے کم فرق کے صورت میں گنتی دوبارہ کی جائے گی جبکہ پریزائڈنگ افسران نتیجے کو فوری طور پر الیکشن کمیشن کو بھیجنے کے پابند ہوں گے۔ حتمی نتیجے کی تصویر بنا کر ریٹرننگ افسر اور الیکشن کمیشن کے ساتھ شیئر کی جائیں گی۔ بل کے تحت پریزائڈنگ افسر انتخاب کا نتیجہ پولنگ کی رات دو بجے تک دینے کا پابند ہوں گے، جبکہ نتائج جمع کروانے کی ڈیڈ لائن اگلی صبح 10 بجے تک رکھی گئی ہے۔
انتخابات میں کامیاب امیدواروں کے حلف لینے سے متعلق بل میں کہا گیا ہے کہ امیدوار 60 روز میں قومی اسمبلی یا سینیٹ کی سیٹوں کا حلف اٹھانے کا پابند ہو گا۔ حتمی نتائج پر بل میں الیکشن کمیشن پولنگ عملے کی تفصیلات کو ویب سائٹ پر جاری کرنے کا کہا گیا ہے، جبکہ حتمی نتائج کے تین روز میں مخصوص نشستوں کی حتمی ترجیحی فہرست فراہم کرنا ہو گی۔ اس بل میں چند اچھی ترامیم بھی ہیں لیکن ان کی آڑ میں جو ترامیم کی گئی ہیں وہ جمہوری اقدار کے کسی طور موافق نہیں۔
بل میں جس شق پر زیادہ اعتراض تھا وہ سیکشن 230 تھا۔ اسی سیکشن کے ذریعے نگران حکومت کو خطرناک حد تک مضبوط کردیا گیا ہے۔ شائد یہی وجہ ہے کہ طویل عرصے کی خاموشی کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی کے سینیٹر رضا ربانی نے ترمیم کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ نگران حکومت کا کام ڈے ٹو ڈے بزنس ہے۔ قومی اثاثوں کو فروخت کرنا نگران حکومت کے اختیار میں کہاں سے آتا ہے؟ میں سیکشن 230 میں ترمیم کی مخالفت کرتا ہوں۔ ترمیم شدہ سیکشن 230 کی ذیلی شق ایک اور دو میں کی گئی ترامیم کے مطابق نگران حکومت کوئی نیا معاہدہ نہیں کر سکے گی اور نہ دو فریقی اور کثیر فریقی جاری معاہدوں پر فیصلوں کا اختیار ہو گا۔ البتہ نگران حکومت کو پہلے سے جاری منصوبوں پر اداروں سے بات کرنے کا اختیار ہو گا، جس سے متعلق وہ اختیار بھی استعمال کر سکے گی۔ مستقبل کی نگران حکومت اب بہت مضبوط ہو جائے گی۔ طریقہ کار کے تحت نگران حکومت منتخب حکومت کی جگہ نہیں لے سکتی؟ نگران حکومت کا کام صرف شفاف انتخابات کروانا ہے، لیکن اب انداز ہی نرالے ہوچکے ہیں۔ بقول رضا ربانی نگران حکومت کا ڈے ٹو ڈے بزنس ہوتا ہے۔ اگر ہم ایسی قانون سازی کر رہے ہیں جس سے نگران حکومت کو منتخب حکومت کے اختیارات دیں، اس سے آئین کا قتل ہو جائے گا۔
سینیٹر مشتاق احمد خان نے قابل توجہ بات کہی کہ”میں اس ترمیم کو متنازعہ انتخابات کی بنیاد کہتا ہوں، آئندہ انتخابات کو متنازع نہ بنائیں۔ اس ترمیم کو نکالیں۔” یہ ترامیم پاس ہونے کیلئے پیش کی گئی تھیں جو پاس ہو گئی۔
نئی ترامیم سے نئے پاکستان کی نئی نگران حکومت ایک منتخب حکومت بلکہ شائد اس سے بھی زیادہ مضبوط ہو گی۔اس حکومت کیلئے آئین میں جو بھی مدت رکھی گئی ہو وہ اپنی جگہ لیکن نئے پاکستان میں اب آئین شکنی کا راستہ پی ڈی ایم حکومت کے اتحادی متعارف کراچکے ہیں۔ تو وہ کوئی مسئلہ باقی نہیں رہا۔ حکومت جتنے دن کی بھی آئینی مدت لے کر آئے لیکن اس مدت کا عملی تعین صرف تین لوگ کریں جبکہ مولانا فضل الرحمن کو صرف اطلاع دی جائے گی۔
الیکشن کمیشن صدر عارف علوی کے حج پر جانے کی وجہ سے اس طرح مزید مضبوط ہو گیا ہے کہ ان کی غیر موجودگی میں قائمقام صدر صادق سنجرانی انتخابات نے انعقاد کی تاریخ کا اختیار بذریعہ آرڈیننس صدر سے لے اب الیکشن کمیشن کو دے دیا ہے۔ اس لئے الیکشن کمیشن بھی اب "ٹرائیکا” کی خواہش کے خلاف نہیں جاسکتا۔ نگران وزیر اعظم کا چناؤ بھی اسی ٹرائیکا کے ہاتھ میں ہوگا۔ جس کیلئے پہلی قسط میں سات نام نوازشریف اور آصف زرداری کو بھیج دئیے گئے ہیں۔
نئے پاکستان میں نگران حکومت اب بے حد "شکتی شالی ” ہو گی اور جب تک ٹرائیکا کی مرضی ہو گی وہ قائم رہے گی۔ اس کے سخت سے سخت فیصلے کو عوام صرف خندہ پیشانی سے قبول ہی کریں گے کہ ان کے پاس کوئی چارہ کار نہیں رہا۔
نوٹ: ادارے کا لکھاری کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔