ابراہیم خان
وفاقی حکومت کی آئینی مدت ختم ہونے میں اب تین ہفتے سے بھی کم رہ گئے ہیں، اس قدر کم وقت باقی رہ جانے کے باوجود ابھی تک کچھ بھی واضح نہیں کہ نگران حکومت کس کو دی جائے گی؟ نگران وزیر اعظم کے بارے میں پہلے یہ شوشا چھوڑا گیا کہ اسے ماہر معیشت ہونا چاہئے جبکہ اس کے بعد دوسری ترجیح یہ سامنے آئی کہ ٹیکنو کریٹ ہونا چاہئے تاہم ابھی اس موضوع پر بحث جاری تھی کہ اچانک ایک نیا مفروضہ کوچہ اقتدار میں چھوڑ دیا گیا کہ نگران وزیر اعظم کیلئے ٹیکنوکریٹ یا ماہر معیشت ہونا کافی نہیں۔
اس "برانڈ” کے وزیراعظم کا خیال ترک کرنے کیلئے حکومتی حلقوں کی طرف سے یہ استدلال پیش کیا گیا کہ محض ٹیکنوکریٹ یا ماہر معیشت علمی اعتبار سے تو بہت بہتر انتخاب ہو سکتا ہے لیکن امور سلطنت چلانے کیلئے صرف یہ اوصاف کافی نہیں بلکہ نگران وزیراعظم میں مذکورہ دونوں اوصاف ہو یانہ ہو لیکن اسے ایک منجھا ہوا سیاست دان ضرور ہونا چاہیے۔ یہ بھی کہا گیا کہ نگران وزیراعظم ایسا ہو کہ انتخابی عمل کے دوران پیش آنے والے دباؤ کو نہ صرف سہہ سکے بلکہ ساتھ ہی پیش آمدہ حالات میں درست فیصلے کرنے کا بھی اہل ہو۔حکومت کی طرف سے گویا یہ طے کرلیا گیا کہ نگران وزیراعظم کسی سیاستدان کو ہی ہونا چاہیے اور نگران وزیراعظم کی ان خاصیتوں میں سب سے اہم وصف یہ ہونا چاہئے کہ وہ غیر جانبدار ہو۔
نگران وزیراعظم بلکہ وزراء کی اس غیر جانبداری کو حکومت ابھی تک خاطر میں نہیں لارہی شائد حکومت کے نزدیک نگران وزیراعظم کی غیر جانبداری کی اسے ضرورت ہی نہ ہو لیکن انتخابات کی شفافیت اس امر کی متقاضی ہے کہ نگران وزیراعظم کا جھکاؤ کسی ایک جماعت یا گروپ کی طرف نہیں ہونا چاہئے۔
شومئی قسمت کہ جو وصف سب سے اہم ہے اس پر بات نہیں کی گئی اور دھڑلے سے حکومت نے نگران وزیراعظم کیلئے اسحاق ڈار کے نام کا شوشہ چھوڑ دیا۔حکومت بلکہ مسلم لیگ ٔ(ن) نے اپنی زنبیل سے آخر اسحاق ڈار کا نام نکال لیا۔
اسحاق ڈار کا شمار گھاگ سیاست دانوں میں تو ہوتا ہی ہے مگر ان میں دیگر اضافی "خوبیاں "بھی ہیں۔
وزیر خزانہ اسحاق ڈار صرف نواز شریف کے سمدھی ہی نہیں بلکہ ان دنوں ڈار کی گڈی آئی ایم ایف کے ساتھ سمجھوتہ ہونے کے بعد خوب چڑھی ہوئی ہے۔حالانکہ واقفان حال بتاتے ہیں کہ آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے کیلئے فروری کے مہینے سے لے کر اب تک جو معاہدہ لٹکا ہوا تھا وہ وزیر اعظم شہباز شریف کی کوششوں سے پایہ تکمیل تک پہنچا ہے۔ بار بار کئے گئے اس اعتراف کے باوجود اسحاق ڈار کی گڈی چڑھائی جارہی ہے، بات صرف یہیں تک محدود نہیں رہی بلکہ اب تو نواز لیگ نپے تلے انداز میں باقاعدہ اسحاق ڈار کو نگران وزیراعظم بنانے کی مہم بھی شروع کر چکی ہے۔
وفاقی وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال تو اس مہم کو آگے لے جانے میں پیش پیش ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر وزیر خزانہ اسحاق ڈار پر اتحادی جماعتوں اور اپوزیشن کا اتفاق ہو جاتا ہے تو انہیں نگران وزیراعظم بنایا جائے گا۔ احسن اقبال کی ان باتوں سے یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ حکومت کو حقیقی اپوزیشن نہ ہونے کی وجہ سے کسی بھی نگران وزیراعظم کی تعیناتی میں باہر کی بجائے حکومتی اتحاد کے اندر سے ڈر ہے کہ دیگر جماعتیں اسحاق ڈار کے نام پر اتفاق نہ کریں۔
اسحاق ڈار کو نگران وزیراعظم بنانے کے معاملے میں دیگر جماعتوں کو تحفظات اس لئے ہوں گے کہ حکمران اتحاد میں شامل جماعتیں کسی انتخابی اتحاد کے تحت اگلا انتخاب نہیں لڑ رہیں۔ یہ جماعتیں اپنی اپنی آزاد حیثیت میں انتخابات میں حصہ لیں گی، تاہم جہاں ضرورت ہوئی وہاں شائد سیٹ ایڈجسٹمنٹ پر گزارا کیا جائے گا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ حکمران اتحاد میں مسلم لیگ نون اب تک کی وہ جماعت ہے جس نے سب سے پہلے اس بات کا اعلان کیا ہے کہ وہ انتخابات میں کسی دوسری جماعت کے ساتھ سیاسی اتحاد نہیں کرے گی۔
نہ جانے مسلم لیگ نون کو یہ اعلان کرنے کی کیا جلدی پڑی ہوئی تھی؟ عین ممکن ہے کہ جس وقت انتخابات میں سولو فلائٹ کا بیان داغا گیا ہو اس وقت اسحاق ڈار کو وزیراعظم بنانے کا پروگرام زیر غور نہ ہو۔ اسی لئے نواز لیگ نے سولو فلائٹ کا اعلان تو کر دیا، لیکن مشکل یہ ہے کہ حکمران اتحاد 13 جماعتوں کی طاقت ہونے کے باوجود بھی اکثر اوقات بالکل بے بس دکھائی دیتا ہے۔ حکمران اتحاد اپنے فیصلے کرنے میں زیادہ آزاد نہیں ہے۔ یہ تاثر احسن اقبال کی اس بات سے زیادہ قوی ہوا ہے جس میں انہوں نے بتایا کہ عسکری حلقے اسحاق ڈار کے نگران وزیر خزانہ رہنے کے حق میں ہیں۔
وزیر خزانہ اسحاق ڈار کا نام جس طرح نگران وزیر اعظم کے طور پر لیا جا رہا ہے وہ راتوں رات سامنے نہیں آیا بلکہ اس نام کو باقاعدہ ایک پلاننگ کے تحت سامنے لایا گیا ہے۔ یہ منصوبہ بندی ان بیانات سے ظاہر ہے جس میں پہلے نگران وزیراعظم کی سب سے بڑی خاصیت اس کے ٹیکنو کریٹ ہونے کو قرار دی جا رہی تھی۔ اس تاثر کو پختہ کرنے کے بعد نگران وزیراعظم کے لئے دوسری ترجیح اس کی معیشت پر مہارت قرار دی گئی۔ یہ وہ موقع تھا کہ جب اس بات کا اندازہ ہو گیا کہ مسلم لیگ نون کو در اصل اسحاق ڈار کو بطور وزیر خزانہ برقرار رکھنے کا گرین سگنل مل چکا ہے۔ عین ممکن ہے کہ حکومتی اتحاد میں شامل دیگر جماعتوں کو بھی اسحاق ڈار کے بطور نگران وزیر خزانہ ہونے پر کوئی اعتراض نہ ہوتا لیکن مسلم لیگ نون کو جو گرین سگنل ملا تھا، اس نے اس سے آگے بڑھ کر وزارت عظمی پر ہی اپنا با اعتماد شخص لانے کی تگ و دو شروع کر دی۔ مسلم لیگ نون نے نگران وزیراعظم کے لئے بہت احتیاط سے مرحلہ وار متوقع نگران وزیراعظم کے فضائل بیان کئے۔
ان فضائل پر اگر غور کیا جائے تو اسحاق ڈار ان پر پورا اترتے ہیں۔ گویا جو خاصیتیں نواز لیگ نے ایک ایک کر کے بیان کیں، وہ اسحاق ڈار میں موجود ہیں۔ اسحاق دار تھری ان ون کی شکل میں سامنے آئے ہیں اور اہم بات یہ ہے لیگیوں کے دعوے کے مطابق مقتدر حلقوں کو بھی ان کے کم از کم وزیر خزانہ رہنے پر کوئی اعتراض نہیں۔ اچھنبے کی بات تو یہ ہے کہ جیسا پہلے بیان کیا گیا کہ آئی ایم ایف سے معاہدے میں اسحاق ڈار سے زیادہ شہباز شریف کا کردار تھا۔ اس کردار کو دیکھتے ہوئے تو اسحاق ڈار کو وزیر خزانہ بھی نہیں رہنا چاہیے تھا لیکن اس کے باوجود نواز شریف کی قربت کی وجہ سے اسحاق ڈار کے ہاتھ میں وزارت عظمیٰ کی لکیر ڈالی جا رہی ہے۔
پاکستان کے اہم فیصلے پاکستان سے باہر بیٹھ کر ہو رہے ہیں۔ اس سلسلے میں دبئی میں مذاکرات کی دوسری قسط شروع ہو چکی ہے۔ میاں نواز شریف سابق صدر آصف علی زرداری اور ان کے فرزند بلاول زرداری دبئی میں سر جوڑ کر بیٹھے ہوئے ہیں۔ مذاکرات کی اس دوسری قسط میں اگر ایک طرف نگران وزیراعظم کا فیصلہ ہونا ہے تو دوسری طرف ان آپشنز پر بھی بات چیت کی جا رہی ہے، جس کے تحت پنجاب میں غالب امکان یہ ہے کہ نواز لیگ کی جگہ حکومتی اتحاد میں سے کسی دوسری جماعت کو لیڈنگ رول دے دیا جائے۔ اس آپشن پر نواز لیگ کی تو سٹی ہی گم ہو چکی ہے۔
سیاسی حلقے اقتدار کی اس نئی تقسیم کو کس طرح اپنے حق میں لاتے ہیں۔ یہ معاملہ بہت اہم ہوگا۔ اس لئے کہ اگر تو سیاسی جماعتوں نے مستقبل کے دئے گئے نقشے کو من و عن قبول نہیں کیا، تو ایسی صورت میں پھر نگران حکومت کا کردار اہم اور طویل ہو جائے گا۔ یہی وہ اہم نقطہ ہے جس کی بنیاد پر نواز لیگ، پاکستان پیپلز پارٹی سمیت تمام دیگر جماعتوں کو اس بات پر قائل کرنا چاہ رہی ہے کہ اسحاق ڈار وزارت عظمی کے لئے مناسب انتخاب ہو سکتے ہیں۔ نواز لیگ کی طرف سے یہ استدلال پیش کیا جا رہا ہے کہ اگر وزیراعظم کے عہدے پر اسحاق ڈار براجمان ہوئے تو سیاسی حلقوں کو بھی امور اقتدار اپنی بات کرنے کرنے کیلئے کچھ سہولت مل جائے گی۔
ان پیچیدہ مسائل سے اس وقت حکمران اتحاد کا سامنا ہے جو یہ سمجھ رہا ہے کہ اسحاق ڈار کو وزیراعظم بنا کر اپنے لئے مستقبل کے اقتدار میں کچھ گنجائش پیدا کر لے گا۔ اس کوشش میں سیاسی حلقوں کو کتنی کامیابی ملتی ہے یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا، لیکن معاشی حالات کی وجہ سے سیاست دانوں کے لئے بھی حالات اس قدر کٹھن ہو چکے ہیں کہ وہ کھل کر اپنی بات نہیں منوا سکتے اور یہی اس وقت سیاست کا سب سے بڑا المیہ ہے۔
نوٹ: ادارے کا لکھاری کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔