لائف سٹائلکالم

نوعمر لڑکوں سے دوستی: والدین بیٹیوں سے زیادہ بیٹوں کے بارے میں فکر مند

نثار بیٹنی

خیبر پختونخوا سمیت ملک کے بعض علاقوں میں نوعمر لڑکوں کو قتل کرنے اور ان پر تیزاب پھینکنے کا سلسلہ بہت تیزی سے بڑھ رہا ہے جبکہ یہ واقعات جس تیزی سے بڑھ رہے ہیں خدشہ ہے کہ مستقبل میں لڑکیوں کے ساتھ ساتھ لڑکوں کی ہراسگی میں بھی اضافہ دیکھنے کو ملے گا۔

علی محمد ڈیرہ اسماعیل خان میں سماجی ورکر ہیں۔ ان کے مطابق پاکستان کے کئی علاقوں میں مخصوص ذہن کے افراد نوعمر لڑکوں کو تنگ اور انہیں اپنے ساتھ دوستی کرنے پر مجبور کرتے ہیں لیکن ہر لڑکا دوستی کا قائل نہیں ہوتا اور یا اس شخص کے ساتھ دوستی کرنا پسند نہیں کرتا تاہم منع کرنے کے باوجود بھی ان افراد کی جانب سے لڑکوں کو کسی نہ کسی طرح تنگ کیا جاتا ہے۔

علی کے بقول یہ صورت حال شہروں سے زیادہ دیہاتوں میں پائی جاتی ہے، ماضی بعید اور ماضی قریب میں بھی ایسے واقعات ہوتے رہتے تھے لیکن سوشل، الیکٹرونک میڈیا کا نا ہونے اور اخبارات کی بڑے شہروں کے سوا دیگر چھوٹے علاقوں تک رسائی نا ہونے کی وجہ سے یہ واقعات منظرعام پر نہیں آتے تھے مگر آج کل سوشل میڈیا اور الیکٹرونک میڈیا کی وجہ سے یہ واقعات چھپ نہیں ہو پا رہے۔ علی محمد کا کہنا تھا کہ اکثر دیہاتوں کا ماحول نوعمر لڑکوں کے رہنے کے قابل نہیں رہا اس لیے والدین کی اکثریت نے باامر مجبوری آباواجداد کی زمینوں اور گھروں کو چھوڑ کر شہروں کا رخ کرلیا ہے جہاں نسبتا ماحول اچھا ہوتا ہے۔

خیال رہے کہ گزشتہ دنوں لکی مروت میں دوستی سے انکار کرنے پر تیزاب گردی کا واقعہ پیش ہوا تھا جس میں 19 سالہ وقار کے تیزاب پھنک دیا گیا تھا اور ان کا چہرہ 70 فیصد تک جھلس گیا۔

نوعمر لڑکوں پر تیزاب پھینکنے کے حوالے سے علی محمد نے بتایا کہ اس کی دو وجوہات ہیں پہلی وجہ ان لڑکوں کا دوستی سے انکار کرنا ہے جبکہ دوسری وجہ عموما اس لڑکے کا فریق اول کے کسی مخالف سے دوستی رکھنا ہے اور دوسری وجہ زیادہ معتبر ہے اور اکثر واقعات اسی دوسری وجہ سے پیش آ رہے ہیں۔

پاکستان کے مختلف علاقوں میں وقوع پذیر یہ واقعات والدین کے لیے سب سے زیادہ تشویشناک ہیں اور وہ ان حالات سے ناصرف براہ راست متاثر ہو رہے ہیں بلکہ حالات کی سنگینی سے آگاہ اور ازحد پریشان ہیں۔ اکثر والدین کا کہنا ہے کہ نوعمر بیٹے کو ان حالات سے بچانا انتہائی مشکل ہوچکا ہے، معاشرے کے وہ افراد جن کی طرف طاقت کا توازن ہمیشہ جھکا رہتا ہے وہ غریب گھرانے کے نوعمر لڑکوں کو جبرا” دوستی کرنے پر مجبور کرتے ہیں بادل ناالخواستہ کئی لڑکوں کو ان سے دوستی کرنا پڑتی ہے  لیکن جو انکار کرتے ہیں ان کو یا تو قتل، معذور کر دیا جاتا ہے اور یا پھر ان کے چہرے پر تیزاب پھینک کر زندگی بھر کے لیے عیب دار کر دیا جاتا ہے۔

یہ رجحان پنجاب کے کچھ شہروں اور خیبر پختونخوا کے بعض اضلاع سمیت اندرون سندھ اور بلوچستان کے اکثر علاقوں میں بھی پایا جاتا ہے، کبھی ایسے واقعات غریب گھرانے کی لڑکیوں کے ساتھ رونما ہوتے تھے، ان لڑکیوں کو زبردستی گھروں سے اٹھالیا جاتا، نکاح کرلیا جاتا، غگ کرلیا جاتا ( رشتہ نا دینے پر اس رشتے دار کی طرف سے اعلان کیا جاتا کہ یہ لڑکی میری ہے جس نے بھی اس سے شادی کی وہ میرا دشمن ہوگا) یا پھر کسی وڈیرے کے ڈیرے پر رکھ لیا جاتا لیکن اب یہ برا رجحان لڑکوں کی طرف بھی بڑھ گیا ہے اور انہیں دوستی کرنے پر مجبور کرنے کے لیے طرح طرح کے ہتھکنڈے استعمال کیے جاتے ہیں۔

اکثر والدین نے بتایا کہ اب یہ حالت ہے کہ نوعمر بیٹوں کو برے لوگوں سے بچانا بیٹیوں کو بچانے سے زیادہ مشکل ہوگیا ہے۔ دیہی علاقوں کے اکثر والدین کے لیے نوعمر بیٹوں کے گھر سے باہر جانے یا تعلیم حاصل کرنے کے لیے نکلنا کسی خطرے سے کم نہیں ہوتا۔

مختلف علاقوں میں بڑھتے اس خطرناک رجحان کے بارے میں پولیس کا موقف ہے کہ اکثر واقعات میں پولیس کو اس وقت اطلاع ملتی ہے یا دی جاتی ہے جب ایسے واقعات رونما ہوچکے ہوتے ہیں جبکہ اکثر والدین بدنامی کے ڈر یا منہ زور افراد کے خوف سے خاموش رہتے ہیں جس کا نتیجہ بعض اوقات ان لڑکوں کے قتل یا تیزاب گردی کی صورت میں نکلتا ہے۔

پولیس افسران کا کہنا ہے کہ بعض اوقات یہ دوستیاں باہمی رضامندی سے بھی ہوتی ہیں اور سب کچھ ٹھیک چل رہا ہوتا ہے لیکن معاملات اس وقت خراب ہوتے ہیں جب فریق دوئم(لڑکا) فریق اول کے ساتھ مزید دوستی سے انکار کر دیتا ہے، بعض دفعہ یہ انکار فریق اول کے کسی مخالف یا ‘رقیب’ کے ساتھ دوستی کی پینگیں بڑھانے کے سبب بھی ہوتا ہے جس سے فریق اول کو شیدید رنج پہنچتا ہے اور وہ اس بے اعتنائی کا بدلہ فریق دوئم کے قتل یا تیزاب گردی کی صورت میں لیتا ہے لیکن یہ وجہ شاذو نادر ہی قتل یا تیزاب گردی کا سبب بنتی ہے۔

والدین کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگر قانون کی مکمل پاسداری ہو اور سزا و جزا کے عمل کو سختی سے لاگو کیا جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ ان واقعات کا سدباب کیا جاسکے، ضرورت قانون کو حرکت میں لانے اور معاشرے کے تمام طبقات کی دادرسی کرنے کی ہے، اگر نوعمر لڑکوں کے قتل اور تیزاب گردی کو بروقت اور مؤثر انداز سے نا روکا گیا تو مستقبل قریب میں ایسے واقعات وبائی شکل اختیار کرلیں گے جس کا علاج اگر ممکن نہیں تو مشکل ضرور ہوگا۔

Show More

Salman

سلمان یوسفزئی ایک ملٹی میڈیا جرنلسٹ ہے اور گزشتہ سات سالوں سے پشاور میں قومی اور بین الاقوامی میڈیا اداروں کے ساتھ مختلف موضوعات پر کام کررہے ہیں۔

متعلقہ پوسٹس

Back to top button