سیاستکالم

سیاسی قوتیں بھی عام انتخابات کی منتظر

ابراہیم خان

پراجیکٹ عمران خان فائلوں کی حد تک اپنے انجام کے آخری مراحل میں داخل ہو چکا ہے۔ سیاسی پنڈتوں نے تو اب عمران خان کی سیاست کی تدفین کی تاریخیں دینا شروع کر دی ہیں۔ ہر "خبری” اپنے اپنے ذرائع سے ملنے والی تاریخ پر ڈٹا ہوا ہے جبکہ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ تاریخیں تو مختلف ہیں لیکن ان میں سے کوئی بھی تاریخ 19 جولائی سے بعد کی نہیں ہے۔

اس کا مطلب یہ ہوا کہ عمران خان عنقریب گرفتار ہونے والے ہیں جس کے بعد غالب امکان یہ ہے کہ فوجی عدالت میں فائنل راؤنڈ ہوجائے گا۔ بظاہر اگر دیکھا جائے تو پاکستان تحریک انصاف پر پابندی کے بعد عام انتخابات کے انعقاد میں کوئی رکاوٹ تو باقی نہیں رہتی. لیول پلیئنگ فیلڈ بھی پی ڈی ایم کو مہیا کردی گئی ہے، تاہم سیاست ممکنات کا کھیل ہے، اس کھیل کی اگر پاکستانی تاریخ دیکھی جائے تو اس کھیل میں کسی بھی لمحے کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں اس سے پہلے ایک اور سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کی فوج کے ساتھ براہ راست ان بن ہوگئی تھی۔نواز شریف نے ایک فوجی سپہ سالار جہانگیر کرامت سے استعفیٰ لے لیا تھا جبکہ دوسرے چیف ( پرویز مشرف) کو برطرف کردیا تھا۔ فوج کے اندر ان دونوں امور اور خاص طور پر اس برطرفی پر بڑا غصہ تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اس وقت میاں نواز شریف کی پھانسی تک کی باتیں ہورہی تھیں۔ حالات خاصے دگرگوں تھے کہ اچانک سعودی عرب کے حکام کی دبنگ انٹری ہوئی اور نواز شریف کی جلاوطنی کے عوض جان بخشی ہوگئی۔

پاکستان کی تاریخ شائد آج اپنے آپ کو پھر دوہرانے والی ہے۔ ڈی جی آئی ایس پی آر کی غیر معمولی پریس کانفرنس سے فوج کے ارادے واضح ہوچکے ہیں کہ وہ 9 مئی کے بعد تحریک انصاف کے بارے میں کیا ارادہ رکھتے ہیں۔ اس کے باوجود دو روز قبل جس طرح سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کی انٹری ہوئی ہے اس کے بعد حالات پر پھر سے بے یقینی کے بادل چھا گئے ہیں۔ اگر تاریخی تناظر میں دیکھا جائے تو پاکستان کے اندرونی معاملات میں جب جب بھی سعودی عرب نے انٹری دی ہے، تو پاکستان کے طاقتور حلقوں کو پسپائی اختیار کرنی پڑی ہے۔ یہ پسپائی زیادہ تر مشروط رہی ہے لیکن موجودہ حالات اس اعتبار سے مختلف ہیں کہ ماضی میں روایتی سیاستدان ہوا کرتے تھے جو نواز شریف کی طرح جلا وطنی پر مان جاتے تھے لیکن اب جو ملزم شکنجے میں آرہا ہے وہ نہ صرف غیر روایتی سیاست دان ہے بلکہ اس میں ضد اور ہٹ دھرمی بھی موجود ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا عمران خان سعودی عرب جیسے دوست ممالک کی مداخلت پر جلا وطنی قبول کر لیں گے؟ بظاہر اس کا جواب نفی میں ہے کیونکہ عمران خان کئی بار یہ کہہ چکے ہیں کہ وہ ملک چھوڑ کر نہیں جائیں گے۔ یہ ہٹ دھرمی اپنی جگہ لیکن بعض حلقوں کا خیال ہے کہ عمران خان نے ماضی میں جس آسانی سی یوٹرن لئے ہیں تو عین ممکن ہے کہ عمران خان ملک سے باہر جانے کے معاملے میں بھی شائد یو ٹرن لے لیں۔ اس یوٹرن کے سر دست بظاہر امکان کم ہیں لیکن عین ممکن ہے کہ ملک کے وسیع تر مفاد میں عمران خان مان جائیں۔

عمران خان اگر ملک سے باہر جانے پر مانتے ہیں تو اس کی صورت یہ ہوگی کہ پاکستان تحریک انصاف کے تمام 102 اسیروں کو رہا کیا جائے۔ اگر تو عمران خان ان اسیروں کی رہائی اور ان پر قائم مقدمات ختم کرنے کی ڈیل پر بیرون ملک چلے جاتے ہیں تو ان حالات میں یہ کچھ زیادہ برا سودا نہیں ہوگا۔ رہی بات تحریک انصاف کی تو وہ کسی پکے ہوئے پھل کی طرح شاہ محمود قریشی کی گود میں آ گرے گی۔ شاہ محمود قریشی بہت سوں کو قابل قبول ہیں۔ ان کی قبولیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ موصوف نے پارٹی بھی نہیں چھوڑی، پریس کانفرنس بھی نہیں کی اور عمران خان کے ساتھ رہنے والوں کے مقابلے میں آزاد فضاؤں میں بھی گھوم رہے ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف اگر شاہ محمود قریشی کی قیادت میں آتی ہے اور عمران خان انتخابی مہم سے باہر ہوگئے تو یہ تحریک انصاف ہومیو پیتھک پارٹی ہوگی جس کا طاقتور حلقوں کو یہ فائدہ پہنچے گا کہ وہ دنیا کو یہ بتا سکیں گے کہ پاکستان تحریک انصاف کے امیدوار بیلٹ پیپرز پر موجود ہیں۔

ان میں سے اگر کچھ لاڈلے منتخب بھی ہوگئے تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں۔ گویا ایک بات طے ہے کہ آئندہ انتخابات میں صرف وہی تحریک انصاف بیلٹ پیپرز پر دکھائی دے گی جو عمرانی سوچ و اثر سے آزاد ہوگی، بصورت دیگر اس جماعت کے مستقبل کے آپشن بہت محدود ہیں۔

عام انتخابات کی اب اگر بات کی جائے تو حکومتی اتحاد انتخابات کے لیے بالکل تیار ہے۔ اس سلسلے میں پاکستان تحریک انصاف کے علاوہ دوبئی میں لگ بھگ تمام اہم سیاسی کھلاڑی موجود ہیں۔ دوبئی میں ہونے والی سیاسی بیٹھکوں کا حال ایسا ہے کہ جس میں یہ صلاح مشورے ہوتے ہیں کہ بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے گا؟ یہ سیاست دان بے چارے بے بس ہیں، ان کو پاکستان کا جمہوری روڈ میپ ابھی نہیں ملا۔ اس روڈ میپ میں واضح ہوگا کہ کس کو کیا ملے گا؟ سیاسی حلقوں کے مطابق ان سیاسی جماعتوں کو جب روڈ میپ تھمایا جائے گا اس کے بعد ان جماعتوں کے ردعمل کو حالات کے مطابق پرکھا جائے گا۔ بہر حال کوشش یہ کی جا رہی ہے کہ جو حکمران جتھا 2021 کے آخری ایام میں قائم کیا گیا تھا اسے آگے بھی "خوش اسلوبی "سے چلایا جائے۔ اس کوشش میں دونوں بڑی پارٹیاں تو مشکل سے ہی سہی اپنے اپنے حصے پر مان جائیں گی لیکن اصل معاملہ چھوٹی جماعتوں کا ہوگا جن کو ہمیشہ کی طرح "تقسیم” پر تحفظات رہے ہیں۔ ان کے تحفظات دور نہ ہوئے تو حکمران اتحاد میں شیروشکر کی یہ فضاء بھی رخصت ہو جائے گی۔ یہی کلیہ بڑی جماعتوں پر بھی لاگو کیا جاسکتا ہے کہ اگر ان کے درمیان پاور شئیرنگ نہ ہوسکی تو ایک دوسرے کے پیٹ پھاڑنے کا سلسلے دوبارہ ہوسکتے ہیں۔

حکمران اتحاد کی دونوں بڑی جماعتوں میں کسی بھی ممکنہ پنجہ آزمائی کی صورت میں سیاسی حلقے یہ امکان ظاہر کررہے ہیں کہ ایسے حالات میں نگران حکومت کا کردار بہت اہم ہو جائے گا۔ یہاں برسبیل تذکرہ یہ ذکر بھی بے جا نہ ہوگا کہ اگر حکمران اتحاد شیروشکر نہ رہا تو ایسی صورت میں نگران وزیراعظم اور کابینہ کے چناؤ میں ان کا کردار محدود ہو سکتا ہے۔ ذرائع تو یہاں تک دعویٰ کررہے ہیں کہ ایسی صورت میں نگران حکومت کا دورانیہ بھی طویل ہو جائے گا۔

نوٹ: لکھاری کے خیالات سے ادارے کا متفق ہونا لازمی نہیں۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button