محمد فہیم
پاکستان میں مون سون کی بارشوں کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے۔ بارشوں کے باعث ملک کے مختلف مقامات پر موسم بھی خوشگوار ہے لیکن سیاسی موسم مسلسل گرم ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس میں مزید گرمی آرہی ہے۔ عید الاضحی کے موقع پر جون کی شدید گرمی میں سابق وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف لندن کا خوشگوار موسم چھوڑ کر دبئی کی گرمی میں بیٹھ گئے ہیں جبکہ سابق صدر آصف علی زرداری بھی پاکستان کی مون سون کی بارشیں چھوڑ کر دبئی کی گرمی میں بیٹھنے کو ترجیح دے رہے ہیں۔ معاملہ دراصل اس موسم کا نہیں جو نظر آرہا ہے بلکہ اس موسم کا ہے جو نومبر میں آئے گا۔ نومبر میں عام انتخابات کا امکان ہے جس کیلئے نواز شریف اور آصف علی زرداری سیٹ ایڈجسمنٹ کررہے ہیں۔
ذرائع کے مطابق بند کمرے میں ہونے والے معاملات میں پیپلز پارٹی نے پنجاب کی 32نشستوں پر مسلم لیگ سے امیدوار کھڑے نہ کرنے کا مطالبہ کردیا ہے۔ پنجاب کی نشستیں مردم شماری کے باعث بھی کم ہونگی اور اندازہ لگایا جا رہا ہے کہ پنجاب میں قومی اسمبلی کی نشستیں 135رہ جائینگی۔ ایسے میں 32نشستیں پیپلز پارٹی کو دینا آسان نہیں ہوگا۔
سینئر صحافی اور اینکر پرسن زاہد میروخیل اس حوالے سے کہتے ہیں کہ پاکستان سے باہر بیٹھ کر ان فیصلوں کی کوئی حیثیت نہیں ہے پاکستان کے معروضی حالات کو سمجھے بغیر دبئی میں بیٹھ کر کاغذ پر حلقے بناکر فیصلہ کرنا آسان ہے لیکن ویسا ہو بھی جائیگا یہ ممکن نظر نہیں آتا۔
میاں نواز شریف پنجاب کو ہاتھ سے جانے نہیں دیں گے لیکن یہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ اس تمام کھیل میں پی ٹی آئی کو نظر انداز کررہی ہے استحکام پاکستان پارٹی اب تک صرف پی ٹی آئی کے رہنماﺅں کو توڑ سکی ہے لیکن کیا پی ٹی آئی کا ووٹر بھی ٹوٹا ہے ؟ یہ کہنا قبل از وقت ہوگا۔
خیبر پختونخوا میں جمعیت علمائے اسلام اور عوامی نیشنل پارٹی کے درمیان اقتدار کی جنگ ہے جبکہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن اس صوبے میں اتحادی جماعت بننے کیلئے پختہ ارادہ کرچکی ہیں ایسے میں صوبے کے سنگھاسن کی لڑائی عوامی نیشنل پارٹی اور جمعیت علمائے اسلام کے درمیان زور پکڑتی جا رہی ہے۔ چند روز قبل ایک نجی آن لائن میڈیا پلیٹ فارم سے گفتگوکرتے ہوئے ایمل ولی خان نے گورنر خیبر پختونخوا سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کردیا جس پر جمعیت علمائے اسلام کی تنظیم کا بھی سخت ردعمل سامنے آیا ہے جو واضح کرتا ہے کہ دونوں جماعتوں کے درمیان معاملات درست سمت میں نہیں چل رہے۔
سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے حوالے سے ہیڈ آف پولیٹیکل سائنس ڈیپارٹمنٹ بے نظیر بھٹو وومن یونیورسٹی پشاور ڈاکٹر سمیرہ گل کہتی ہیں کہ یہ فیصلے کبھی بھی ووٹرز نے قبول نہیں کئے ہیں پنجاب میں کسی نہ کسی حد تک یہ معاملہ شاید طے پا جائے لیکن خیبر پختونخوا میں ایسا ممکن نہیں ہے۔
خیبر پختونخوا میں سیاسی شعور اور ووٹرز کا طریقہ کار مختلف ہے یہاں ووٹر یا تو اپنی پارٹی کے امیدوار کو ووٹ کریگا یا پھر ووٹ ہی نہیں کریگا۔ ڈاکٹر سمیرہ گل کے مطابق ماضی میں پی ڈی ایم اتحاد واضح کرچکا ہے کہ یہ فیصلے بند کمروں میں تو اچھے لگتے ہیں لیکن پولنگ کے روز تمام جماعتوں کو ایک جماعت سے شکست ہوگئی جو واضح کرتی ہے کہ سیٹ ایڈجسٹمنٹ کم سے کم خیبر پختونخوا میں ممکن نہیں ہوگی۔ جمعیت علماءاسلام اور عوامی نیشنل پارٹی کے متوقع سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے حوالے سے ڈاکٹر سمیرہ گل کہتی ہیں کہ یہ سیٹ ایڈجسٹمنٹ ہونا ممکن نہیں ہے کیونکہ دونوں جماعتیں ایک دوسرے پر کھل کر تنقید کررہی ہے تاہم ایسے علاقے جہاں یہ دونوں جماعتیں کمزور ہیں وہاں چند نشستوں پر شاید ایڈجسٹمنٹ ہوجائے لیکن ان دونوں کی سیٹ ایڈجسٹمنٹ کا فائدہ تیسرا فریق ہی اٹھائے گا۔