نثار بیٹنی
تعلیم حاصل کرنا ہر انسان کا بنیادی حق ہے لیکن سب ڈویژن بیٹنی میں یہ حق بچیوں کے ساتھ ساتھ شاید بچوں کو بھی حاصل نہیں کیونکہ سب ڈویژن بیٹنی ہر حوالے سے پسماندہ ہے جبکہ تعلیم کے معاملے میں یہ علاقہ ملک کے دیگر علاقوں سے 50 سال پیچھے ہے۔
پاکستان میں گو کہ تعلیمی منظرنامہ زیادہ واضع اور قابل فخر نہیں، بدقسمتی سے آج بھی ملک بھر میں ایسے علاقے موجود ہیں جہاں تعلیم ابھی تک اجنبی ہے۔
خیبر پختونخوا کے جنوبی سرکل میں واقع علاقہ سب ڈویژن بیٹنی، جو کبھی ایف آر لکی مروت کہلاتا تھا، آج بھی تعلیمی پسماندگی میں اپنا ثانی نہیں رکھتا۔ اس کے بعض علاقے ایسے ہیں جہاں بچیوں کی تعلیم کا خیال تو درکنار بچوں کو بھی زیور تعلیم سے فیض یاب کرانا معیوب اور وقت کا ضیاع سمجھا جاتا ہے۔ سب ڈویژن بیٹنی میں اگر تعلیم پر نظر ڈالی جائے تو یہاں پر بہت سارے سرکاری سکول موجود ہے جن کی تعداد 116 ہے۔ ان سکولوں میں 6 کمیونٹی سنٹرز، 3 گرلز ہائی سکول، 6 گرلز مڈل اور 49 گرلز پرائمری سکول جبکہ 3 بوائز ہائی سکول، 7 بوائز مڈل سکول اور 44 پرائمری سکول ہیں۔
مقامی افراد کے مطابق چند ایک سکول کو چھوڑ کر تقریبا 90 فیصد سکول غیرفعال اور بند ہیں، مقامی ذرائع کے مطابق محکمہ تعلیم کے کاغذوں میں ان تمام سکولوں میں ٹیچنگ و نان ٹیچنگ سٹاف موجود ہے لیکن یہ سکول سالوں سے غیر آباد ہیں اور ان کا عملہ گھر بیٹھ کر تنخواہیں لے رہا ہے، بدقسمتی سے تقریبا یہ سارے سکول صرف بلڈنگ اور کلاس فور کی بھرتیوں تک محدود ہے۔ مقامی افراد کے مطابق سب ڈویژن بیٹنی میں زیادہ سے زیادہ 10 بوائز سکول فعال ہوں گے کیونکہ یہاں کے مالکان ان سکولوں پر قبضہ جمائے بیٹھے ہیں اور وہ ان سکولوں کو اپنی جاگیر سمجھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں زنانہ تعلیم کی شرح 2 فیصد اور مردانہ تعلیم کی شرح 38 فیصد ہے۔
اس بارے میں جب ای ڈی این سب ڈویژن بیٹنی قدرت اللہ خان سے رابطہ کیا تو ان کا کہنا تھا کہ علاقہ میں 60 فیصد سکول فعال ہے جن میں بوائز اور گرلز دونوں سکول شامل ہیں۔ محکمہ تعلیم کے اعداد و شمار کے مطابق بوائز ہائی سکولوں میں 600 طلباء جبکہ گرلز ہائی سکولوں میں 80 طالبات زیر تعلیم ہیں۔ اسی طرح بوائز مڈل سکولوں میں 900 طلباء جبکہ گرلز مڈل سکولوں میں 300 طالبات زیر تعلیم ہیں۔
اعداد وشمار کے مطابق پرائمری سطح پر بوائز سکولوں میں 2500 طلباء جبکہ گرلز پرائمری سکولوں میں 2000 طالبات زیر تعلیم ہیں۔
محکمہ تعلیم کے اعداد وشمار کو دیکھا جائے تو یہ ایک حوصلہ افزا صورت حال ہے لیکن زمینی حقائق اس کے برعکس ہے اور تصویر خاصی بھیانک ہے۔ مقامی افراد اور غیر جانبدارانہ سروے کے مطابق یہ اعداد وشمار غلط ہے اور علاقہ میں بمشکل 8 سے 10 بوائز سکول کسی حد تک فعال ہے جبکہ گرلز سکولوں کو تالے لگے ہوئے ہیں اور پورے علاقہ میں بمشکل 100 سے 150 بچیاں تعلیم حاصل کررہی ہیں اور ان میں بھی اکثریت ان بچیوں کی ہے جو تجوڑی اور لکی مروت علاقہ کے قریب رہائش پذیر ہیں۔
اس صورت حال پر تبصرہ کرتے ہوئے مقامی افراد نے بتایا کہ بچیوں کے سرکاری سکول بند ہے، ان سکولوں کو فعال کرانے کی بڑی کوشش کی گئی لیکن علاقائی رسم و رواج آڑے آرہے ہیں جبکہ یہاں کے بااثر ملکان نے، جو ان سکولوں کے مالکانہ حقوق رکھتے ہیں، ان سکولوں کو ذاتی استعمال کے لیے وقف کرکھا ہے۔
ای ڈی این قدرت اللہ خان نے مزید بتایا کہ محکمہ تعلیم کے افسران ایک سے دو ماہ میں درج بالا سکولوں کا دورہ کرتے ہیں جبکہ باقی مہینوں میں کیا ہوتا ہے کچھ معلوم نہیں۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ آیا وہ سارے سکولوں کا دورہ کرتے ہیں اور کیا معائینہ کے دوران تمام بوائز اور گرلز سکول کھلے ہوتے ہیں تو وہ کوئی تسلی بخش جواب نا دے سکے، تمام تر حقائق کے بعد جو سروے کیا گیا اس کے مطابق سب ڈویژن بیٹنی اور کوٹکہ جات میں تقریباََ 17 ہزار بچیاں ایسی ہیں جن کی عمر تعلیم حاصل کرنے کی ہے لیکن وہ تعلیم حاصل نہیں کر پا رہیں اور بچیوں کی یہ شرح سالانہ تقریباََ 500 کے حساب سے بڑھ رہی ہے۔
اس حوالے سے علاقائی رہنما قطب الدین خان نے بتایا کہ سب ڈویژن بیٹنی تعلیمی لحاظ سے ڈوبتا جا رہا ہے، ان حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے اور تعلیمی پسماندگی کو دور کرنے کے لیے حکومت کو تمام کشتیاں جلانی ہوں گی کیونکہ حالات اس نہج تک پہنچ گئے ہیں کہ پورے ڈویژن کے کئی علاقوں میں پورے کے پورے کوٹکہ جات تعلیم سے عاری ہیں اور مرد و خواتین تعلیم کے نام سے ناآشنا ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ علاقہ میں کچھ خاندان ہیں جو اپنی بچیوں کو تعلیم دلانا چاہتے ہیں لیکن سکولوں کی بندش اور سخت گیر رسم و رواج کے آگے مجبور ہیں لہذا ایسے کئی خاندان پڑوسی اضلاع لکی مروت، بنوں اور ڈی آئی خان میں آباد ہوگئے ہیں تاکہ اپنے بچوں کا مستقبل روشن کرسکیں۔
قطب الدین خان نے بتایا کہ اس رجحان سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ لوگ اب قبائلیت سے نکلنا چاہتے ہیں اور قلم کی نوک سے ایک نئی زندگی شروع کرنا چاہتے ہیں لیکن مقامی ماحول، حکومت کی عدم توجہی اور سکولوں کے مالکوں کی ہٹ دھرمی ان کے راستے کی رکاوٹ ہے۔ بقول قطب الدین خان کے اگر اس علاقے کی تعلیمی پسماندگی کو ختم کرنے کی کوشش کی جائے اور اس کا حل ڈھونڈھ لیں تو میری نظر میں یہ پسماندگی مہینوں میں ختم ہوسکتی ہے۔
مقامی افراد کے مطابق سب ڈویژن بیٹنی میں بچیوں کی شرع تعلیم 2 فیصد ہے حالانکہ بچیوں کے 59 سکول حکومتی فائلوں اور محکمہ تعلیم کے ریکارڈ میں قائم اور فعال ہیں اور ان کے اساتذہ و دیگر سٹاف کی تنخواہیں باقاعدگی سے آرہی ہیں لیکن زمینی حقائق اس کے برعکس ہے، صورت حال زیادہ سنگین یوں بھی ہے کہ سب ڈویژن بیٹنی میں بچیوں کی تعلیم ایک طرف یہاں کے بچے بھی تعلیم سے محروم چلے آرہے ہیں اور بچوں کے 57 سکولوں میں صرف 10 سکول فعال ہیں جو بذات خود ایک سانحہ ہے۔
قابل افسوس بات یہ ہے کہ آزادخیل، تاجبی خیل سمیت سب ڈویژن بیٹنی کے متعدد دیہات پورے کے پورے تعلیم سے محروم ہے اور ان دیہاتوں میں تعلیم حاصل کرنا فضول کام جبکہ بچوں کو کم عمری میں کراچی، لاہور، پشاور اور ملک کے دیگر علاقوں میں روزگار کے لیے بھیجنا قابل فخر سمجھا جاتا ہے اس کی وجہ ان لوگوں میں تعلیم کے حوالے سے شعور کا نا ہونا ہے، ضرورت اس بات کی ہے کہ ناصرف بچیوں کی تعلیم کی حوصلہ افزائی کی جائے، ان کے لیے ماحول سازگار اور محفوظ بنایا جائے بلکہ ان ملکان اور مشران سے جواب طلب کیا جائے جنہوں نے سالہاسال سے ان سکولوں کو بیٹھک، گودام اور جانوروں کے باڑوں میں تبدیل کررکھا ہے، ان کی جواب طلبی کی جائے اور اس قومی جرم پر ان کے خلاف کارروائی کی جائے تاکہ آگے چل کر مزید بچوں اور بچیوں کا مستقبل داو پر نا لگ سکے۔