ابراہیم خان
محترمہ بے نظیر بھٹو کی 1996ء میں ختم ہونے والی حکومت کے خاتمے کے یوں تو کئی اسباب تھے لیکن ان میں سے ایک سبب یہ بھی تھا کہ اس حکومت کے دور میں ججز کے فون ٹیپ کئے گئے اور ان کی جاسوسی کی گئی تھی۔
پاکستان کی تاریخ اٹھا کر دیکھیں تو شائد ہی کوئی دور ایسا گزرا ہو جس کے دوران ججز سمیت اہم حکومتی اہلکاروں کے فون نہ ٹیپ ہوئے ہوں۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ ہر حکومت کا دامن اس معاملے میں داغ دار کیا جاتا رہا ہے۔ ان لیکس کو کون ریکارڈ کرتا ہے؟ اس بارے میں کبھی کسی فرد یا گروپ کا باقاعدہ تعین نہیں کیا گیا لیکن غیر رسمی گفتگو میں ہر پاکستانی اس بابت بھانت بھانت کے انکشافات ایسے کرتا ہے کہ جیسے فون کی یہ ساری جاسوسیوں کا وہ عینی شاہد ہو۔
حکومتوں کے حوالے سے اگر بات کی جائے تو مسلم لیگ (ن) کے ادوار حکومت میں عدلیہ کے ساتھ محاذ آرائی ذیادہ رہی ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے دور میں بھی یہ سلسلہ جاری و ساری رہا جبکہ موجودہ حکومت کے دور میں جج ارشد ملک کی لیگ سامنے آئی۔ ارشد ملک کی لیکس کا کھوج لگانے میں نواز لیگ کی دلچسپی نہ تھی لیکن اب جو لیکس سامنے آرہی ہیں ان کا کھوج لگانے میں پوری کی پوری اتحادی حکومت ہی بے حد سنجیدہ دکھائی دیتی ہے۔ اس سنجیدگی کا عالم یہ ہے کہ جہاں ضرورت پڑے وہاں نہ صرف حکومت خود بلکہ پورا حکومتی اتحاد چاق وچوبند دکھائی دیتا ہے۔ اس ضمن میں عدلیہ کے ساتھ محاذ آرائی میں تو پارلیمنٹ نے راتوں رات ایسی قانون سازی کی جیسے ملک سے غربت مٹارہی ہو۔ ایسا ہی کچھ چند دن پہلے سامنے آنے والی لیکس کے ساتھ بھی ہوا۔ ان لیکس کی تحقیقات کے لیے وفاقی حکومت نے 20 مئی کو ججز کی آڈیو لیکس کی تحقیقات کے لئے سپریم کورٹ کے سینیئر جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق اور چیف جسٹس بلوچستان ہائی کورٹ نعیم افغان پر مشتمل تین رکنی انکوائری کمیشن تشکیل دیا۔ اس کمیشن نے پیر کے روز سے کام بھی شروع کردیا ہے جبکہ اس کمیشن کے قیام کے بارے میں رانا ثناءاللہ کا کہنا تھا کہ کمیشن کے قیام کی بابت حکومت پر سول سوسائٹی کا بہت دباؤ تھا اس لئے یہ کمیشن تشکیل دے دیا۔
بھولے رانا ثناءاللہ نہ جانے کس سول سوسائٹی سے دب گئے۔ اس ملک کی سب سے بڑی سول سوسائٹی غریبوں کی ہے جس کے دباؤ میں آکر کبھی بھی غربت کے خاتمے کے لیے ایسے جنگی اقدامات نہیں دیکھے گئے۔ اس کمیشن کے ذمے پہلا کام تو یہ ہونا چاہیے تھا کہ اس قسم کی تمام لیکس کا کھوج لگاتا لیکن حکومت نے اس معاملے میں بھی صرف "مطلوب” لیکس کا کھوج لگانے کے لیے جوڈیشل کمیشن قائم کیا۔ کمیشن جن آڈیو لیکس کی تحقیقات کرے گا، ان میں سابق وزیراعلیٰ پنجاب پرویز الٰہی کی دو لیکس، سپریم کورٹ کے ایک وکیل اور صحافی کی آڈیو لیک سمیت سابق وزیراعظم عمران خان اور مسرت جمشید چیمہ کے درمیان ہونے والی گفتگو کی آڈیو لیکس کی تحقیقات شامل ہیں۔
حکومت نے جس طرح ان لیکس کی فہرست مرتب کی ہے اس کو دیکھ کر حکومتی عزائم کے بارے میں کچھ کہنے کی ضرورت ہی باقی نہیں رہتی۔ اس کمیشن کی ترکیب بھی انتہائی بھونڈے انداز سے کی گئی۔ عام طور پر طریقہ یہ ہے کہ اگر کوئی جوڈیشل کمیشن بنانا مقصود ہو تو حکومت براہ راست چیف جسٹس سے رابطہ کرتی ہے کہ وہ اس مقصد کے لیے کمیشن بنا رہی ہے جس کے لیے وہ ججز کی نامزدگی کردیں۔ اس بار کمیشن کے قیام کے لیے چیف جسٹس کو یکسر نظر انداز کر دیا گیا۔ حکومت نے اس کمیشن کا سربراہ بلا شبہ سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو بنادیا جبکہ ان کے ساتھ دو صوبوں کے ہائیکورٹ کے چیف جسٹس بطور ممبر شامل کردئے۔ اس طرح ایک ایسا معاملہ جس میں سینئر ججز سے بھی پوچھ گچھ جونئیر ججز کو سونپ دی گئی ہے۔ مشکل یہ ہے کہ اس کمیشن کے قیام میں یہ جھول اس وجہ سے رہا ہے کہ کمیشن کے اراکین کی نامزدگی حکومت نے کی جس کی اپنی ترجیحات ہیں۔
عین ممکن ہے کہ حکومت کا یہ خیال ہوکہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا جو موقف ہے اس کی بنیاد پر یہ کمیشن کوئی ایسا نتیجہ فراہم کردے جس کی بنیاد پر حکومت آگے چل کر چیف جسٹس عمر عطاء بندیال کے خلاف یا پھر پاکستان تحریک انصاف کے خلاف کسی ممکنہ کارروائی کی راہ ہموار کر سکے۔ عدلیہ سے وابستہ حلقے پہلے بھی اس تاثر کی نفی کررہے تھے۔ ان حلقوں کا استدلال تھا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے کسی جج کے بارے میں جو بھی رائے ہو لیکن جس اعلیٰ پائے کے وہ جج ہیں، ان سے من چاہی امید وابستہ کرنا خام خیالی کے سواء کچھ نہیں ہوگا۔ اس امر کا بڑا واضح اشارہ خود قاضی فائز عیسیٰ نے کمیشن کی پہلی کارروائی کے دوران اس وقت دیا جب موصوف نے کھل کر یہ کہا کہ” کمیشن کسی جج کے خلاف کوئی کارروائی کر رہا ہے اور نہ کرے گا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ کمیشن صرف حقائق کے تعین کے لئے قائم کیا گیا ہے۔ یہ کمیشن کسی بھی طور سپریم جوڈیشل کونسل کے دائرہ اختیار میں مداخلت نہیں کرےگا۔
جوڈیشل کمیشن کے سربراہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے یہ ریمارکس عین ممکن ہے کہ حکومتی حلقوں کو پسند نہ آئے ہوں لیکن اب حکومت کو ان عوامل کو برداشت کرنا پڑے گا۔ اس کمیشن کی صرف یہی ایک بات حکومت کو ناپسند نہیں بلکہ زیادہ اہم معاملہ ٹیلیفون ٹیپ کرنے والوں کا ہے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے واضح کر دیا ہے کہ معلومات فراہم کرنے والے کو شناخت ظاہر کرنا لازمی ہو گا۔ نامعلوم ذرائع سے آنے والی معلومات قابل قبول نہیں ہوں گی۔ یہ نقطہ بہت اہم ہے کیونکہ اب تک جو بھی لیکس سامنے آتی رہی ہیں ان پر ایک ہنگامہ تو برپاء رہا لیکن کبھی کھل کر یہ نہ پوچھا گیا کہ فون کس نے ٹیپ کیا؟ کس کی اجازت سے ہوا؟ اور اس ریکارڈنگ کا مقصد کیا تھا؟ اب بھی حکومت نے لیکس کا کھوج لگانے کے لیے انکوائری کمیشن تو تشکیل دے دیا لیکن کمیشن کے طریقہ کار میں یہ درج نہیں کہ یہ ریکارڈنگ کس نے کی؟ کمیشن کے سربراہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے فی الحال تو یہ کہا ہے کہ طلب کردہ معلومات دینے والے کی شناخت کرانا لازمی ہوگا۔ یہ نقطہ سب سے اہم ہوگا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ماضی میں ولی خان کیس میں بھی عدالت نے واضح طور پر قرار دیا تھا کہ وڈیو یا آڈیو اسی وقت قابل غور ہوگی جب ریکارڈ کرنے والا فرد خود موجود ہوگا۔
اسی بابت کچھ عرصہ قبل سابق چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے بھی متعدد بار احکامات جاری کئے جن میں وڈیو یا آڈیو ٹیپ کرنے والے کی موجودگی لازمی قرار دی گئی تھی۔ اگر کمیشن اس بات پر ڈٹ گیا کہ ریکارڈنگ کرنے والوں کا بتایا جائے حکومت کو لینے کے دینے پڑ جائیں گے۔ دوسری طرف اگر یہ کمیشن جس کو تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے چیلنج کر رکھا ہے اس کے باوجود بھی بچ جاتا ہے تو پھر اسے ریکارڈنگ کا ذریعہ جانے بغیر آگے بڑھنا مشکل ہو جائے گا۔ یہ مشکل اس وجہ سے بھی بڑھ سکتی ہے کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے پہلی نشست میں یہ بھی کہہ دیا ہے کہ سماعت کے دوران کمیشن کی کارروائی کو عام (پبلک) کیا جائے گا البتہ معاملہ حساس ہوا تو ان کیمرہ کارروائی پر بھی غور ہوسکتا ہے۔
یہ سب اسی وقت ہوگا اگر عدالت عظمیٰ اس کمیشن کے قیام کو درست قرار دے گا۔ پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے انکوائری کمیشن کو سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا ہے۔ ہی ٹی آئی نے موقف اختیار کیا کہ چیف جسٹس پاکستان کی اجازت کے بغیر کسی جج کو کمیشن کے لئے نامزد نہیں کیا جاسکتا۔ جوڈیشل کمیشن کی تشکیل کے نوٹیفکیشن کو کالعدم قرار دیتے ہوئے درخواست میں مزید کہا گیا کہ سپریم کورٹ کے کسی جج کے خلاف تحقیقات یا کارروائی کا فورم صرف سپریم جوڈیشل کونسل ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کی درخواست کے دونوں نقاط بہت اہم ہیں۔
غالب امکان یہی ہے کہ حکومت کا عجلت میں قائم کردہ یہ کمیشن عدالت عظمی کالعدم قرار دیدے گی۔ اگر یہ کمیشن کالعدم قرار دیا جاتا ہے تو پاکستان تحریک انصاف کو حکومت کے خلاف ایک اور کامیابی مل جائے گی لیکن ان کامیابیوں کے باوجود مستقبل میں عمران خان کے ساتھ پاکستان تحریک انصاف کی انتخابی کامیابی کا سردست تو تصور ہی محال ہے۔
یہ الگ بات ہے کہ مملکت خداداد پاکستان معجزات کی سرزمین ہے اگر کوئی معجزہ ہوگیا تو تحریک انصاف موجودہ حصار سے نکل سکتی ہے بصورت دیگر جب ملک میں چیف جسٹس کی حکم عدولی کی جائے اور ان کے خلاف بازاری سے بھی نچلے درجے کی زبان استعمال کی جارہی ہو وہاں سب کچھ ممکن ہے۔