پاکستانی فن تعمیرات میں انقلاب، کیا عام آدمی کم قیمت پر اپنا گھر بنا پائے گا؟
حمیرا علیم
عموما روایتی تعمیر میں بہت چیلنجز ہوتے ہیں۔ جہاں دنیا آٹومیشن کی طرف بڑھ رہی ہے وہیں مختلف ٹیکنالوجیز کے ذریعے تعمیراتی صنعت کو خودکار بنانے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ تعمیر میں اضافی مینوفیکچرنگ جسے عام طور پر 3D کنکریٹ پرنٹنگ کہا جاتا ہے، یہ ایک ممکنہ تعمیر کے طور پر سامنے آئی ہے۔
بہت سے ترقی یافتہ ممالک اپنے روایتی طرز تعمیر کو 3D کنکریٹ ٹکنالوجی پرنٹنگ کی طرف منتقل کر رہے ہیں۔ اس میں تعمیراتی لاگت 40 فیصد ممالک کی ماڈیولر تکنیک سے 50 فیصد تک کم ہو جاتی ہے جبکہ بہت سے لوگ اس تعمیر کو بڑے پیمانے پر ہاؤسنگ یونٹس اور مختلف عناصر کی تعمیر کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
پاکستان ایک ترقی پذیر ملک ہے جس کی تعمیراتی صنعت میں 92 فیصد توسیع متوقع ہے۔ کنسٹرکشن ملک کے کل جی ڈی پی کا 2.53 فیصد بنتا ہے۔ اس کی بڑھتی ہوئی آبادی کے ساتھ تعمیراتی صنعت پر زیادہ دباؤ ہے کہ وہ اپنی پیداواری صلاحیت کو بڑھائے۔ ایک اندازے کے مطابق اس وقت مکانات کی 10 ملین کی کمی ہے جس میں 2025 تک 13 ملین تک اضافہ متوقع ہے اگر تعمیراتی کنکریٹ سیکٹر میں اسے مکمل طور پر شامل کیا جائے تو پرنٹنگ ناگزیر حل پیش کرتی ہے۔
اس بحران سے نمٹنے کے لیے اسلام آباد میں نیشنل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی (نسٹ) کے سٹرکچر اینڈ سروے ڈپارٹمنٹ کے سول انجینیئرز نے پاکستان کا ‘پہلا تھری ڈی’ کنکریٹ ماحول دوست پرنٹر تیار کیا ہے۔
نسٹ یونیورسٹی کے طالب علم اور اس پرنٹر کو بنانے والے محققین میں شامل راجا دلاور ریاض نے بتایا کہ یہ پرنٹر انہوں نے ابتدا میں چھوٹے پیمانے پر بنایا تھا جس کے بعد انہوں نے اسے بڑے پیمانے پر تیار کیا جبکہ اس سے ہماری تعمیراتی لاگت کو 40 سے 50 فیصد تک کم کیا جا سکتا ہے۔ اس ٹیکنالوجی کی خاص بات یہ ہے کہ اس میں آپ کو مزدور رکھنے کی ضرورت نہیں پڑے گی اور اس پرنٹر کے ذریعے آپ اس سے مسلسل کام لے سکتے ہیں۔ پاکستان ایک ایسا ملک ہے جہاں ایک کروڑ لوگوں کے پاس اپنا گھر نہیں ہے۔
دنیا کے بیشتر ممالک ایسے پرنٹر متعارف کروا رہے ہیں تاکہ ایک سستا اور اچھا ماحول دوست گھر آپ کم پیسوں میں بنا سکیں گے۔ اس میں آپ سیمنٹ اور دیگر میٹریل ڈال کر، ڈیجیٹل کنٹرول سسٹم سے کنٹرول کر کے مختلف شکلوں میں تعمیراتی اشیا کا پرنٹ لے کر انہیں بنا سکتے ہیں۔ اس پرنٹر کے ذریعے آپ پودوں کے لیے گملوں سمیت تعمیرات میں استعمال ہونے والی اینٹیں اور پلرز تک بنا سکتے ہیں۔
راجہ دلاور کے مطابق اس تھری ڈی کنکریٹ پرنٹر کو انہوں نے پہلی مرتبہ انٹرنیشنل ہاؤسنگ ایکسپو میں ‘کم لاگت کی جدید ہاؤسنگ ٹیکنالوجی’ کی تھیم کے تحت نمائش میں پیش کیا تھا جہاں ان کی کافی حوصلہ افزائی کی گئی اور انہیں اس منصوبے کے لیے متعدد کمپنیوں کی جانب سے بطور انعام فنڈز بھی دیے گئے۔ انہوں نے بتایا کہ اس پرنٹر کو بنانے پر کل آٹھ لاکھ روپے کی لاگت آئی اور اس کی تیاری پر تقریباً ایک سال کا وقت لگا ہے۔ اس مشین کو انہوں نے جب نمائش میں پیش کیا تو پاکستان کی بڑی تعمیراتی کمپنیوں نے ان سے رابطہ کیا اور اس طرح کی مشین بنوانے کا مطالبہ بھی کیا گیا۔
ان کے بقول رابطہ کرنے والوں میں متعدد وزرا بھی شامل ہیں جنہیں باقاعدہ طور پر سرکاری نقشے بھی دیئے گئے ہیں۔
اس 3D کنکریٹ پرنٹر کا فریم سائز 1.2m x 1.2m x 1m ہے۔ یہ 1mx1mx0.5 کا حجم پرنٹ کر سکتا ہے۔ یہ سستا کنکریٹ پرنٹر بڑے پیمانے پر تعمیراتی ایپلی کیشنز کے لیے ایک پروٹو ٹائپ کا کام کرتا ہے جبکہ یہ مختلف شکلوں کے آرکیٹیکچرل اور ساختی اجزاء کو پرنٹ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس پرنٹر کے استعمال کا تصور بہت آسان ہے۔
ایک 3D CAD ماڈل بنایا جاتا ہے پھر کمپیوٹر سافٹ ویئر اور ماڈل کو ضرورت کے مطابق کاٹا جاتا ہے اس پرنٹر میں mach3 کنٹرولر G-Code فائل کو پڑھتا ہے اور کنکریٹ کی تہہ کو باہر نکالتا ہے۔
اس سے بہت سے فوائد، جیسے کہ امید افزا طریقہ کار اور پیداوار، محفوظ تعمیراتی کام، خوبصورتی، شکل اور فنکشن کے درمیان توازن، ڈیزائن کی لچک، ٹاپولوجیکل آپٹیمائزیشن، پیداواری صلاحیت میں اضافہ، محنت مزدوری میں کمی، تحقیق کی زیادہ صلاحیت، اعلیٰ درجے کی ٹیکنالوجی پر مبنی نوکریاں، ساختی/آرکیٹیکچرل عناصر کی کثیر فعالیت ،سرمایہ کاری مؤثر بڑے پیمانے پر ہاؤسنگ اسکیمز، توانائی کی بچت، حاصل کرنے کی امید ہے۔
یہ ٹیکنالوجی جلد ہی تعمیر پاکستان میں انقلاب برپا کر دے گی جبکہ پاکستان میں تعمیراتی صنعت میں انقلاب لانے کی صلاحیت کے علاوہ، یہ پرنٹر پائیدار تعمیرات اور جدید تحقیق کی وسیع صلاحیت رکھتا ہے۔