عالمی یوم مزدور: ‘مزدور کے لئے دو لقمے کمانا جوئے شیر لانے سے کم نہیں’
عصمت خان
آج یکم مئی کو دنیا بھر میں مزدوروں کا عالمی دن منایا جارہا ہے جس کا مقصد مزدوروں اور محنت کشوں کے مسائل کو اجاگر کرنے کے ساتھ ساتھ ان کے مسائل کو حل کرنے کیلئے آواز اٹھانا ہے کیونکہ اب بھی بہت سے مزدور ایسے ہیں جن کے حقوق کا احترام نہیں کیا جاتا۔
عالمی یوم مزدورکے دن قوم چھٹی منارہی ہے جبکہ جس طبقے کے افراد کی قربانیوں کے نتیجے میں یہ تعطیل منائی جاتی ہے وہ اج بھی مشقت میں ڈوبے دکھائی دیتے ہیں، اس دور میں محنت کش کے لئے رزق حلال کے دو لقمے کمانا جوئے شیر لانے سے کم نہیں۔ مزدور کو مزدوری کے دوران جس سفاکانہ روئیے کا سامنا کرنا پڑتا ہے وہ الفاظ میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔
مزدوروں کا استحصال
ترقی پذیر ممالک میں حالات انتہائی بدتر اور ناگفتہ بہ ہیں، مزدوروں کی رجسٹریشن نہیں کی جاتی انہیں سرکاری طور پر اعلان شدہ انتہائی کم معاوضہ بھی نہیں ملتا جبکہ کنٹریکٹ کے نام پر مزدوروں کا بدترین استحصال کیا جاتا ہے۔ مستقل تقرر نامے نہیں دیئے جاتے تاکہ نوکری سے بلا وجہ نکالے جانے پر وہ لیبر کورٹ سے رجوع نہ کرسکیں تمام تر مزدور یونینز کے احتجاج اور موثر کردار کے باوجود پاکستان کے مزدوروں کی حالت زار ابتر ہے۔
پاکستان میں یوم مزدورکی اہمیت
پاکستان کی پہلی لیبر پالیسی 1972 میں وضع کی گئی تھی جس میں یکم مئی کو سرکاری تعطیل کا اعلان کیا گیا تھا۔عالمی سطح پر آٹھ گھنٹے کی شفٹ کے باوجود بہت سے مزدور 12 سے 16 گھنٹے کام کرتے ہیں کچھ اوور ٹائم حاصل کیے بغیر محنت مزدوری کرتے ہیں۔ پاکستان میں چھوٹے اور درمیانے درجے کی صنعتوں پر چیک اینڈ بیلنس نہ ہونے کی وجہ سے بچوں کو مزدوری کے طور پر استعمال کرنے کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔ مزید یہ کہ انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن (ILO) کے رہنما خطوط کے مطابق کام کی جگہیں مزدوروں کے لیے محفوظ نہیں ہیں۔ نیز پاکستان میں لیبر فورس ایمپلائز اولڈ ایج بینیفٹ انسٹی ٹیوشن (EOBI) کے ساتھ رجسٹرڈ نہیں ہے جو کہ مزدوروں کی سہولت کے لیے قائم کیا گیا تھا۔
مزدوروں کے مسائل کیا ہیں؟
زرعی کارکن سے لے کر ہر طرز کی چھوٹی صنعت، فیکٹری، بھٹہ خشت، ہوزری، ٹیکسٹائل، سلائی کڑائی، دستکاری، ہینڈیکرافٹس، مختلف النوع اشیاء کی تیاری اور تعمیراتی پروجیکٹس میں مزدور زیادہ ہیں
کام کی جگہ پر ملازمین اور آجر دونوں کی ضروریات کے لیے سازگار ماحول فراہم کرنا ضروری ہے تاہم پاکستان میں لیبر قوانین کا نفاذ نہیں کیا جا رہا ہے اور کارکنوں کو کام کی جگہ پر صحت، حفاظت، اقتصادی اور صفائی کے مسائل کا سامنا ہیں پاکستان میں کام کی جگہوں پر کوئی حفاظتی اقدامات نہیں کیے جاتے نہ ہی انہیں بنیادی سہولیات میسر ہیں حفاظتی انتظامات نہ ہونے کی بناء پر متعدد افراد زخمی ہوجاتے ہیں اور آئے روز مزدور اپنی جانیں کھو رہے ہیں۔
مزدوروں کے حکومت سے توقعات
جیسا کہ ہم وفاقی بجٹ کے اعلان کا انتظار کر رہے ہیں جس کے تحت کم از کم اجرت میں اضافہ متوقع ہے تاہم یہ دیکھنا باقی ہے کہ آیا اعلان کردہ اعداد و شمار موجودہ سماجی اقتصادی اشاریوں جیسے خاندانی اوسط اور صارفی قیمت کے اشاریہ کو ذہن میں رکھے گا اور جب کم از کم اجرت بڑھا دی جاتی ہے تب بھی ویج بورڈز کو نوٹیفکیشن جاری کرنے میں مہینوں لگ جاتے ہیں ستم ظریفی کی بات یہ ہے کہ پاکستان میں حکومت کے اعلان کے باوجود کم سے کم اجرت بھی مزدوروں کو نہیں ملتی۔
مزدور کیا چاہتے ہیں؟
پاکستان کے ہر مزدور کا مطالبہ ہے کہ انہیں بطور مزدور رجسٹرڈ کیا جائے اور اس کا باقاعدہ اندراج ہونا چاہیے اور تنخواہ اوقات کار سمیت جملہ امور کا ڈیکلیریشن ہونا چاہیے.
عالمی یوم مزدور کی ابتدا کب ہوئی؟
عالمی یوم مزدور عالمی سطح پر منانے کی ابتداء امریکہ کے شہر شکاگو سے ہوتی ہے جہاں پہلی بار 1886ء میں مزدوروں نے باضابطہ طور پر کام کے اوقات کو آٹھ گھنٹے کرنے اور ہفتہ میں ایک دن کی تعطیل کئے جانے کا مطالبہ کیا تھا، اس مطالبے کی عدم منظوری پر مزدوروں نے احتجاج کیا اور ہڑتال کی. اس ہڑتال اور مظاہرہ کے دوران پولیس نے فائرنگ شروع کر دی اور اس فائرنگ میں کئی مزدور جان سے گئے۔ اس سانحہ کے بعد 1889 ء میں پیرس میں عالمی جنرل اسمبلی کی دوسری میٹنگ میں فرنچ انقلاب کو یاد کرتے ہوئے ایک قرارداد منظور کی گئی کہ اس سانحہ کی تاریخ یعنی یکم مئی کو عالمی سطح پر یوم مزدور کے طور پر منایا جائے۔ اس قرارداد کے منظور ہوتے ہی اسی وقت 80 ممالک نے یوم مئی یا یوم مزدور کے موقع پر قومی تعطیل کا بھی اعلان کر دیا اس طرح یوم مزدور وجود میں آیا اور اس وقت نعرہ دیا گیا تھا ‘دنیا کے مزدور ایک ہوں’ اس لحاظ سے یکم مئی خالص مزدوروں کا دن ہے.