عوام کی آوازکالم

میڈیا پر وائرل بزرگ: مجھے علم نہیں تھا لوگ میرے پاس کیوں آ رہے ہیں؟

حمیرا علیم

آج کل کے بیشتر جبکہ خصوصا پاکستانی مسلمان نہایت ہی کمزور عقیدے کے مالک ہیں کیونکہ کوئی بھی دین کے نام پر کچھ بھی کچھ کہہ کر ان کی عقیدت و محبت باآسانی حاصل کرسکتا ہے، کبھی کوئی خدیجہ اور عائشہ رضی اللہ عنہما کی سلائی مشین پوسٹ کرکے لاکھوں سبحان اللہ، ماشاءاللہ اور شکریہ وصول کرتے ہیں تو کبھی فاطمہ رضی اللہ عنہا اور نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے کپڑے جوتے، برتن، بال، اور دانت مبارک کی ویڈیوز اور تصاویر شیئر کر کے دعائیں لی جاتی ہیں جبکہ کبھی کوئی غیر مستند یا گھڑی ہوئی حدیث پوسٹ کر کے صرف کسی ماہ کی مبارک باد یا محمد نام رکھنے پر جنت کی بشارت سنا کر جزاک اللہ کہلواتے ہیں۔

ہم بناء یہ سوچے سمجھے، کہ اس زمانے میں سلائی مشین تھی بھی یا نہیں، فاطمہ رضی اللہ عنہا کا گھر اتنا بڑا اور سجا ہوا ہوتا تو وہ مشقت بھری زندگی کا گلہ والد محترم سے کیوں کرتیں؟ وہ ہستی جس کے پاس دو جوڑے کپڑے وہ بھی پیوند لگے اور چند برتن تھے، جس کے صرف دو دانت شہید ہوئے تھے اور چند بال سفید تھے اس کے اتنے ڈھیروں کپڑے ، جوتے، برتن اور دیگر اشیاء دنیا بھر میں کہاں سے آ گئیں؟ کیا جنت اتنی ہی سستی ہے کہ صرف ایک مبارکباد کا لفظ کہہ کر یا نام رکھ کر اس میں جگہ بک کروا لی جائے؟ جبکہ دنیاوی سوسائٹیز کے اندر گھر یا پلاٹ خریدنے کے لیے سو جتن کرنے پڑتے ہیں۔

اس سب پہ بھی حیرت ہوتی ہے لیکن افسوس اس وقت ہوتا ہے جب ہم مسلمان ہو کر عقیدہ آخرت، مرنے کے بعد برزخ کی زندگی کو بھلا کر غیر مسلموں کی طرح بدروح، آواگون کا پرچار کرنے لگتے ہیں۔ مانا کہ دوسری مخلوقات کی طرح جن بھی ایک مخلوق ہیں اور ہمارے ساتھ ہی رہ رہے ہیں لیکن ان کو اتنا بااختیار سمجھنا کہ وہ انسانوں میں حلول کر جائیں یا انہیں جانی و مالی نقصان پہنچا سکیں یہ تو بعید از عقل ہے کیونکہ ایک 40 سالہ جن ایک دس سالہ انسانی بچے کی عقل و طاقت رکھتا ہے۔

اب ہم آواگون کے عقیدے کو درست ثابت کرنے کے لیے بھی جدوجہد کر رہے ہیں آج کل سوشل میڈیا پر ایک بزرگ کی ویڈیو وائرل ہے جو کہ ہاتھ میں عصا پکڑے سر پر سفید کپڑا ڈالے مسجد نبوی کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ لوگوں نے دھڑا دھڑ اس ویڈیو کو وائرل کر کے یہ دعویٰ کرنا شروع کر دیا کہ’موصوف کی شکل ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے ملتی ہے لہٰذا وہ ہی سلام کرنے روضہ رسول ہر تشریف لائے تھے۔’

بھئی آج کل اتنے گیجٹس اور ایپس ہیں کہ بندہ دنیا کے کسی بھی کونے میں بیٹھ کر دوسرے کونے کی خبروں کی تصدیق لمحوں میں کر سکتا ہے تو پھر کسی نے یہ زحمت کیوں نہ کی کہ ان بزرگ سے بات کر کے یہ جاننے کی کوشش کرتا کہ وہ کون ہیں اور کہاں سے آئے ہیں؟

شاید یہی سوچ ایک بلوچ بھائی کو ان بزرگ سے ملنے اور بات کرنے پر مجبور کر گئی۔ ایک یوٹیوبر نے بابا جی کا انٹرویو کیا جس میں ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کے صوبہ بلوچستان (جنوبی پشتونخوا) سے تعلق رکھنے والے قادر بخش مری حب چوکی کے قریب ساکران کے علاقے میں ایک جھونپڑی میں رہائش اختیار کیے ہوئے ہیں۔ چاروں طرف جھاڑیوں اور ہریالی میں گھری جھونپڑی انتہائی سادہ تھی جہاں سوائے چٹائی کے اور کچھ نہ تھا۔

باباجی 8 سے 10 پہلے یہ سوچ چکے تھے کہ انہیں عمرہ کرنا ہے، گزشتہ 15 سال سے باباجی بکریاں چرا کر پیسے اکھٹے کرتے رہے تاکہ اللہ کے گھر اور نبی آخرالزماں کے شہر کی زیارت حاصل ہو سکے۔ تاہم کرونا نے ان کا خواب پورا ہونے سے روکا تو ٹھہر تو گئے مگر ہمت نہ ہاری اور دوبارہ پیسے جمع کیے کیونکہ باباجی کا پاسپورٹ ایکسپائر ہو چکا تھا۔

انٹرویو کے دوران باباجی نے مزید بتایا کہ جب مشہور ہوئے تو لوگ میرے ساتھ ویڈیو بناتے، لوگ دعا کی طلب بھی کرتے، لیکن اُس وقت تک مجھےخود علم نہیں تھا کہ لوگ میرے پاس کیوں آ رہے ہیں۔

باباجی کے بیٹے کا کہنا تھا کہ میرے والد نے 15 سال پہلے حج کا ارادہ کیا تھا، نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے روزے کا دیدار کروں گا مگر اس وقت ہمارے پاس پیسے نہیں تھے۔ ان کے بقول باباجی نے بکریاں چرا کر پیسے اکھٹے کرنا شروع کیے، عمرے کے لیے گئے تو رہائش کا مسئلہ تھا اس لئے حرم میں ہی سو گئے، بیت الخلاء کا علم نہیں تھا لہذا دکان سے پانی کی بوتل لی اور وضو کرلیا۔ دوسرے دن مری قبیلے کے کسی شخص نے، جو سعودیہ میں رہائش پذیر ہے، دیکھا تو وہ اپنے گھر لے گیا۔

بچوں کو پریشانی تھی کہ کہیں بابا لاپتہ نہ ہو جائیں کیونکہ نہ موبائل فون تھا اور نہ ان کے ساتھ کوئی گروپ تھا جبکہ  والد تنہا ہی نکل پڑے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ سعودی عرب میں موجود پاکستانیوں کی مدد سے والد کی خبر ملتی رہتی۔ بیٹے نے یہ انکشاف بھی کیا کہ والد کبھی کبھار مسجد الحرام میں ہی سو جاتے تھےکھانا پینا تو مسجد الحرام میں ہوتا تھا مگر سعودی عرب میں ان کی زندگی کے حسین لمحات گزرے ہیں۔

بس اتنی سی بات تھی جس پر لوگوں نے کئی افسانے گھڑ لیے، خدارا قرآن کی ان آیات کو پڑھیے انہیں یاد رکھیے اور ہر معاملے میں ان پر عمل کیجئےجن میں اللہ تعالٰی ہمیں اپنے آنکھ، کان،ناک، دماغ اور عقل استعمال کرنے کا حکم دیتا ہے خاص طور پر دین سے متعلقہ معاملات میں تاکہ ہم کسی بھی قسم کی گستاخی، شرک اور گناہ سے بچ سکیں۔

Show More

Salman

سلمان یوسفزئی ایک ملٹی میڈیا جرنلسٹ ہے اور گزشتہ سات سالوں سے پشاور میں قومی اور بین الاقوامی میڈیا اداروں کے ساتھ مختلف موضوعات پر کام کررہے ہیں۔

متعلقہ پوسٹس

Back to top button