"ماما! میں اپنا گلا کاٹنا چاہتا ہوں”
حمیرا علیم
پچھلے چند سالوں سے بچوں اور نوجوانوں میں ذرا سی بات پر خودکشی کا رجحان بڑھتا جا رہا ہے؛ عشق میں ناکامی، نمبرز توقع سے کم آنا، والدین سے اختلاف، والدین یا اساتذہ کی ڈانٹ یا کوئی نفسیاتی مسئلہ ہو، آسان حل ہے کہ خود کو ختم کر لیا جائے، خس کم جہاں پاک!
خودکشی حرام ہے، مایوسی گناہ ہے اور اپنی جان لینا مسائل کا حل نہیں ہے، اس سب پر تو مجھ سمیت کئی لکھاریوں نے قلم اٹھایا ہے؛ کچھ نے والدین کو سختی اور ڈانٹ ڈپٹ کی بجائے بچوں سے دوستی کرنے کا مشورہ دیا، کچھ نے جنریشن گیپ ختم کرنے کا کہا لیکن کسی نے بچوں کو یہ سمجھانے کی کوشش نہیں کی کہ آپ بچے ہی بن کر رہیں والدین کے باپ بننے کی کوشش نہ کریں۔
میری جنریشن کے لوگ اس بات کے گواہ ہیں کہ ہمارے والدین تو کیا کوئی محلے دار بھی ہماری کسی غلطی پر ڈانٹ ڈپٹ کر دیتا تھا اور ہم چپ چاپ سن لیتے تھے کہ بڑے ہیں ہماری بھلائی کے لیے ہی ڈانٹ رہے ہیں۔ اساتذہ کا تو پسندیدہ مشغلہ ہی بات بات پر دھنک کر رکھ دینا تھا اور اگر والدین کو شکایت کرتے تو وہ بھی ٹکا کے تواضع فرماتے کہ ضرور تمہاری ہی غلطی ہو گی ورنہ اساتذہ کو کیا تم سے ذاتی دشمنی ہے۔
جبکہ آج کل کے بچے اساتذہ کو تو نوکر ہی سمجھتے ہیں کہ ہماری فی سے ان کی تنخواہ دی جاتی ہے بلکہ والدین کو بھی نوکر ہی سمجھتے ہیں جن کا کام انہیں دنیا بھر کی آسائشیں مہیا کرنا، انہیں بہترین تعلیمی اداروں میں پڑھانا اور ان کی ہر بے جا خواہش بھی پوری کرنا ہے لیکن وہ ان سے کسی قسم کی بازپرس کے مجاز نہیں کیونکہ یہ بچوں کی شخصی آزادی، نفسیاتی و ذہنی صحت کے لیے نقصان دہ ہے۔
میرا مشاہدہ یہ ہے کہ ہماری جنریشن کے پاس محدود سہولیات یا آسائشات ہوتی تھیں؛ ہم اپنی پڑھائی میں مصروف رہتے تھے اس کے بعد چند کھیل کھیلے، کچھ کارٹونز دیکھے اور خود کو خوش قسمت ترین انسان سمجھتے تھے لیکن آج ہر بچے کے پاس ٹیب، لیپ ٹاپ، اپنا ٹی وی، پی سی، سائیکل، بائیک، گاڑی، پیسوں سے بھرا والٹ اور دیگر سہولیات وافر مقدار میں موجود ہیں جبکہ جسمانی اور ذہنی ایکٹیوٹی بالکل نہ ہونے کے برابر ہے۔
اسکولز اپنے اچھے رزلٹ شو کرنے کے لیے نالائق ترین اسٹوڈنٹ کو بھی ٪90 مارکس دے کر پروموٹ کر دیتے ہیں، تعلیم اور تربیت کی بجائے اسکولز میں صرف بزنس کیا جاتا ہے اور گھر والے بھی اسکولز پر تکیہ کر کے بچوں کی تعلیم و تربیت سے مبرا ہو جاتے ہیں۔
حالانکہ اساتذہ اور والدین دونوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ بچوں کی جسمانی، روحانی اور دینی تربیت کریں۔ جب والدین اور اساتذہ اپنے فرائض سے غافل ہو گئے اور بچوں کو ہر طرح کی آزادی مل گئی تو ان کے اندر ایک خلا پیدا ہو گیا۔ اور وہ بور ہونے لگے، یہ وہ لفظ ہے جو ہمارے بچپن میں شاید ہماری ڈکشنری میں تھا ہی نہیں، بھرے پیٹ، آسائشوں نعمتوں میں گھرے بچے خودترسی کا شکار ہو کر ڈپریشن کے مریض بننے لگے۔ اور اس سے نکلنے کے لیے پہلے ڈرگز، نامحرم سے تعلقات اور پھر خودکشی کا سہارا لینے لگے۔
یقین مانیے یہ سب مغرب کی تقلید اور دین سے دوری کا نتیجہ ہے۔
مغرب والدین کو ایک دو سالہ بچے کو بھی ڈانٹنے کی اجازت نہیں دیتا لیکن پھر بھی وہاں بچے سیریل کلر، سائیکو پیتھ اور ذہنی امراض کا شکار ہوتے ہیں۔ ثابت ہوا صرف پیار ہی تربیت کے لیے کافی نہیں پابندی، مار اور ڈانٹ بھی ضروری ہے ورنہ نماز کی پابندی کے لیے مارنے کی اجازت نہ ہوتی۔
اب ذرا میری جنریشن اور آج کے بچوں کا موازنہ کریں تو پتہ چلتا ہے کہ ہم ذہنی، جسمانی اور روحانی طور پر نہایت صحتمند تھے لیکن آج کل کے بچے ہر لحاظ سے بیمار ہیں۔ مگر یہ بیماری بھی صرف امیروں کے ہاں پائی جاتی ہے۔ کبھی کسی غریب کا بچہ حالات سے تنگ آ کر یا ماں باپ کی مار پیٹ پر خودکشی نہیں کرتا۔ یہ سب امیروں کے چونچلے ہیں۔
سب جانتے ہیں کہ گوگل، ایپل اور کمپیوٹر کے بانیوں نے اپنے بچوں کو ایک خاص عمر تک نہ تو آسائشیں دیں نہ ہی گیجٹس، وجہ ان کی تربیت کرنا تھا۔ پھر ہم کیوں یہ ضروری سمجھتے ہیں کہ دنیا بھر کی چیزیں دے کر ہم بہترین انسان اور اسٹوڈنٹ بنا سکتے ہیں؟
بچوں کو سہولیات دیجئے مگر ان کی قدروقیمت بھی بتائیے؛ انہیں بتائیے کہ کروڑوں لوگوں کو پانی اور کھانا بھی میسر نہیں اور آپ ان سب سے بہتر ہیں کہ گھر، گاڑی، کھانا، کپڑے اور دیگر نعمتوں سے مالا مال ہیں۔ انہیں بتائیے کہ والدین ان کے بڑے اور دنیا کے ہر شخص سے بڑھ کر خیر خواہ ہیں اور وہ انہیں ڈانٹ ڈپٹ کا پورا حق رکھتے ہیں، ان کی اطاعت بچوں پر فرض ہے نہ کہ والدین کا فرض ہے کہ وہ بچوں کے غلام بن جائیں۔
کھلائیں سونے کا نوالہ مگر دیکھئے شیر کی نظر سے۔
جو ڈرامے، فلمیں، آرٹیکلز وغیرہ اس چیز کو پرموٹ کرتے ہیں کہ بچوں کی ہر بات مانی جائے، انہیں پیار سے سمجھایا جائے تبھی وہ صحتمند اور معاشرے کے لیے مفید انسان بن سکتے ہیں، انہیں والدین کی حیثیت اور مرتبہ بھی بتانے کی ضرورت ہے۔
اللہ تعالٰی نے فرمایا ہے کہ انہیں آف تک نہ کہو کجا کہ بحث کی جائے۔ دوستی اور احترام کے درمیانی حد کو پہچاننا لازم ہے۔ جس طرح آپ دوستوں سے فرینک ہو سکتے ہیں والدین کے ساتھ نہیں ہو سکتے۔ مانا کہ آپ والدین سے زیادہ کسی پر اعتبار نہیں کر سکتے، صرف وہی آپ کے مسائل کو حل کر سکتے ہیں اور انہی سے اپنی ہر بات ڈسکس کرنی چاہیے لیکن اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ آپ ان کا مقام ہی بھول جائیں۔
آج کل اے آر وائی کے ڈرامے پنجرہ کا موضوع بھی یہی ہے کہ والدین کی بے جا سختی اور بچوں میں موازنہ بچوں کو کریمینل بنا دیتا ہے۔ بالکل درست! ہر بچے کی اپنی قابلیت، آئی کیو اور ٹیلنٹ ہوتا ہے اس لیے کسی بچے کا دوسرے کے ساتھ موازنہ نہیں کرنا چاہیے۔
لیکن اس ڈرامے میں کچھ ایسی چیزیں بھی دکھائی گئی ہیں جن سے مجھے اختلاف ہے۔
والد اپنی بیگم اور بچوں کے میوزک سیکھنے اور بجانے کیخلاف ہیں، والدہ بچی کو بوائے فرینڈ اور موبائل رکھنے پر سختی کرتی ہیں تو انہیں مظلوم ترین لوگ بنا کر پیش کیا جاتا یے جس کے نتیجے میں بچہ ڈرگز لینے لگتا ہے اور والدہ بھی احساس کمتری کا شکار ہو جاتی ہیں۔ جب کہ ہر والدین کا فرض ہے کہ وہ اپنے بچوں کی دینی تعلیم و تربیت بھی کریں۔
والدین کی خواہش ہوتی ہے کہ جو تلخ تجربات کر کے اور ٹھوکریں کھا کر انہوں نے زندگی گذاری ہے اس کا سامنا ان کے بچوں کو نہ کرنا پڑے، وہ انہیں زمانے کے سردگرم سے بچانا چاہتے ہیں، ان کی حفاظت کرنا چاہتے ہیں اس لیے ان پر سختی کرتے ہیں لیکن جب بچے اپنے آپ کو عقل کل سمجھ کر خود تجربات کرنا چاہتے ہیں تو ہمیشہ نقصان اٹھاتے ہیں۔
ایک شخص کے پانچ سالہ بچے نے باپ سے پوچھا کہ کیا وہ اونچی دیوار سے چھلانگ لگا سکتا ہے، اس نے جواب دیا ہاں! بچے نے چھلانگ لگائی اور چوٹ کھائی تو باپ سے گلہ کیا آپ نے بتایا کیوں نہیں کہ چوٹ لگے گی۔ باپ نے جواب ديا اگر میں تمہیں روکتا تو تم ضرور اس کام کو کرتے لیکن اب جبکہ تم خود تجربہ کر چکے ہو تو آئندہ یہ غلطی کبھی نہیں دہراؤ گے۔
ہم اس شخص والا فارمولا اپنے بچوں کی ہر فرمائش پر لاگو نہیں کر سکتے اس لیے بچوں کو زندگی اور نعمتوں کی قدر کرنا سکھائیے۔ اگر وہ کسی نفسیاتی بیماری کا یا الجھن کا شکار ہیں، انہیں اسکول یا گھر میں کوئی مسئلہ درپیش ہے تو اس کا حل نکالیے، انہیں خودکشی کے حرام ہونے کا علم دیجئے اور سکھائیے کی دنیا کا کوئی مسئلہ ایسا نہیں جو مستقل ہو یا جس کا حل نہ ہو بس ہمت و حوصلے سے کام لیجئے، اللہ سے مدد مانگیے اور صبر کیجئے۔
میرا بڑا بیٹا چند سال کا تھا جب ایک دن وہ اسکول سے آیا اور بولا: "ماما! میں اپنا گلا کاٹنا چاہتا ہوں۔” میں نے سب کام چھوڑ کر اسے بٹھایا اور لمبا چوڑا لیکچر جھاڑا کہ کچھ بھی ہو جائے آپ اپنے آپ کو مار نہیں سکتے، خودکشی کے متعلق دینی و دنیاوی لحاظ سے نکات بیان کیے، بیچارہ چپ چاپ سنتا رہا اور جب میں نے آخر میں پوچھا: "آپ اپنا گلا کیوں کاٹنا چاہتے ہو؟” تو بڑی معصومیت سے بولا:” مجھے پیسے چاہیے اس لیے گلا کاٹنا ہے۔” وہ بے چارہ اپنا غلہ توڑ کر پیسے نکالنا چاہ رہا تھا مگر غلے کی جگہ گلا اور توڑنے کی جگہ کاٹنا استعمال کر رہا تھا۔
لیکن اس غلط فہمی کا فائدہ یہ ہوا کہ اس کے ذہن میں خودکشی ایک گناہ ہے کا تصور پختہ ہو گیا۔ آج جب وہ تیرہ سال کا ہے تو کسی بھی مسئلے کے حل کے لیے دو رکعت نفل پڑھ کر دعا کرتا ہے اور یقین رکھتا ہے کہ اللہ تعالٰی اس کے مسائل کو ضرور حل فرمائیں گے۔ اپنے امتحانات میں تہجد بھی ادا کرتا ہے تاکہ اسے کامیابی نصیب ہو۔
میرا مشورہ اور تجربہ یہی ہے کہ بچوں کو اللہ تعالٰی سے جوڑیے، اس کی محبت ان کے دل و ذہن میں ڈالیے اور بےفکر ہو جائیے۔ ہاں! ان کے لیے دعا ضرور کیجئے کیونکہ والدین کی اولاد کے حق میں کی گئی دعائیں ضرور قبول ہوتی ہیں۔
اللہ تعالٰی سب کے بچوں کو اپنی امان میں رکھے اور والدین کو اولاد کے دکھ سے بچائے۔