ڈالر کی اڑان اور پیارا پاکستان
حمیرا علیم
وہ تمام پاکستانی جن کے رشتے دار بیرونی ممالک میں روزگار کے سلسلے میں مقیم ہیں یا نیشنل ہیں، وہ خوش ہیں کہ ریال، درہم، ڈالروں پونڈ کے ریٹس دن دگنی رات چوگنی ترقی کر رہے ہیں لیکن اس کا دوسرا رخ بھی دیکھنے کی ضرورت ہے کہ ان کے ریٹس اس لیے بڑھ گئے ہیں کیونکہ ہمارے روپے کی قدر گرتی جا رہی ہے۔ اور یہ اس قدر تیزی سے گر رہی ہے کہ چند دنوں میں پاکستان کے ڈیفالٹ ہونے کا خدشہ ہے۔
ویسے تو مہنگائی صرف پاکستان کا ہی مسئلہ نہیں ہے، دنیا بھر میں حتی کہ امریکہ، آسٹریلیا، یوکے اور انڈیا میں بھی ہر چیز کی قیمت میں اضافہ ہو چکا ہے لیکن دنیا کی ہر حکومت اپنی عوام کو بہت سے ریلیف بھی دیتی ہے؛ صحت، تعلیم، کرایوں اور بلز میں بھی حکومت اپنا حصہ ڈالتی ہے جبکہ پاکستان میں حکومت صرف قرضوں کے ڈھیر لگاتی ہے جن کی وجہ سے عوام پر بلز اور ٹیکسز کی بھرمار کرتی ہے۔
پیاز، چکن اور آٹا تو مہنگا اور ناپید تھا ہی اب مژدہ سنایا جا رہا ہے کہ دالوں کا اسٹاک بھی صرف پندرہ دن کا ہے اور پٹرول کی قیمت بھی عوام کی پہنچ سے باہر ہونے والی ہے۔ غریب تو آٹے کے لیے ہی اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر رہے تھے اب تو لگتا ہے جاپان کی طرح اجتماعی خودکشیاں ہوں گی۔ دو خبریں پڑھ کر اندازہ ہوا کہ حالات کس قدر سنگین ہو چکے ہیں۔
ایک ڈاکٹر صاحب نے بتایا کہ ان کے پاس ایک شدید زخمی جوان لایا گیا جس کی عمر 25-26 سال ہو گی، اس نے ڈاکٹر سے درخواست کی کہ اس کے گھر پر اس کے مرنے کی اطلاع نہ دی جائے اور اس کی میت کفن دفن کے لیے چھیپا یا ایدھی سنٹر کو دے دی جائے۔ ڈاکٹر نے اسے تسلی دی کہ وہ اسے بچانے کے لیے پوری کوشش کرے گا مگر جوان کو اپنی موت کا یقین تھا، اس نے ڈاکٹر کو بتایا کہ وہ ایک مزدور ہے، آج دو دن بعد مزدوری ملی جو کہ تیرہ سو روپے تھی تو اس نے سوچا بیوہ ماں اور یتیم بہن جو دو دن سے بھوکی ہیں انہیں کھانا کھلائے گا۔ اسی سوچ میں تھا کہ اچانک ایک بائیک اس کے سامنے آ کر رکی اور اس سے موبائل اور پیسے مانگے مگر اس نے نہیں دیئے جس پر اسے گولیاں مار دی گئیں، بٹنوں والا پرانا سا موبائل نکال کر اس نے ڈاکٹر سے درخواست کی کہ اسے بیچ کر اس کی بہن کو جوتا لے دیجئے گا اور تیرہ سو اس کی ماں کو دے کر کہیے گا کہ آپ کا بیٹا کام کے سلسلے میں دوسرے شہر چلا گیا ہے۔ بدقسمتی سے ڈاکٹر اسے نہ بچا سکا لیکن اس کے کفن دفن کا بندوبست بھی کیا اور اس کی ماں اور بہن کے مستقل روزگار کا بھی۔
دوسری خبر ٹی وی کے ذریعے پہنچی جس کے مطابق تین چھوٹے بچوں کے والد نے خودکشی کر لی کہ وہ گھر والوں کو آٹا مہیا نہیں کر سکتا تھا، اس کے دو دن بعد ماں نے بھی اسی دکھ سے تنگ آ کر خود کو ختم کر لیا جبکہ بچے جن کی عمریں تین چار سال اور چند ماہ تھیں، وہ بے یارو مددگار جھونپڑی میں رو رہے تھے۔
ایسے بے شمار واقعات روز کا معمول بن چکے ہیں۔ راولپنڈی اسلام آباد جیسے محفوظ شہروں میں بھی کراچی کی طرح اسٹریٹ کرائم میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے، سگنلز پر گھروں کے سامنے بھرے بازار میں بائیکس، موبائل اور پرس چھیننا عام ہو چکا ہے۔ بڑھتے کرائم ریٹ اور قتل و غارت خودکشیوں کی وجہ صرف اور صرف مہنگائی ہے۔
عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں جب قحط پڑا تو انہوں نے چوری کی سزا ہاتھ کاٹنا منقطع کر دی تھی جبکہ آج کے پاکستانی حکمران لاکھوں کے برینڈڈ سوٹس، ٹائیز، گلاسز، گھڑیاں، جوتے پہن کر کشکول اٹھائے دنیا بھر سے پیسے مانگ کر اپنے سوئس اکاوئنٹس بھرتے ہیں اور عوام کو ٹیکسز اور بلز کی مار مار کر بھی اپنے منہ آپ میاں مٹھو بن رہے ہیں اور ہر وقت سب اچھا ہے کا راگ الاپتے نظر آتے ہیں۔
سرکاری ملازمین اور غریب عوام وہ طبقہ ہیں جو ٹیکس ادا کرتے ہیں، ہر چیز حتی کہ ماچس پر بھی 6 سے 9 ٹیکسز ہیں۔ملازمین کی تنخواہ میں اضافے کی بجائے کٹوتی کی جا رہی ہے اور ٹیکسز بھی بڑھائے جا رہے ہیں۔ پھر بھی ہمارے حکمرانوں کے اکاوئنٹس بھرتے ہی نہیں ہیں، ان کی ہوس میں کمی ہو کے ہی نہیں دے رہی۔
کسی جگہ ایک لطیفہ پڑھا تھا جو ہماری حکومت پر صاد آتا ہے۔ تاش کھیلتے ہوئے کسی جوارئیے کو خبر ملی کہ اس کی ماں مر گئی ہے، اس نے پیام دیا کہ قبر کھدوائیں میں بازی ختم کر کے پہنچ رہا ہوں۔ پھر خبر آئی کہ قبر بن گئی اس نے پھر پیام دیاغسل اور کفن کا انتظام کریں میں پہنچتا ہوں۔ بتایا گیا کہ وہ بھی ہو گیا ہے، کہنے لگا جنازہ اٹھائیں میں پہنچنے لگا ہوں پھر خبر ملی کہ جنازہ روانہ ہو گیا ہے، کہنے لگا مولوی کو کہیں شروع کرے، میں بس آیا پہنچا، آخری خبر آئی کہ جنازہ ہو گیا ہے اور تدفین کر دی گئی ہے۔ بولا چلیں اللہ مغفرت فرمائے۔ چلو بھئی نئی بازی شروع کرو۔
پاکستان وہ مرنے والی ماں ہے جبکہ اسٹیبلشمنٹ، عدلیہ اور سیاستدان سب اس ماں کی جواری اولاد ہیں جن کے سامنے ماں مر رہی ہے اور یہ سب بازیاں کھیل رہے ہیں۔
لوگ تو مر بھی نہیں سکتے کہ کفن بھی افورڈ نہیں کر پا رہے، ڈیتھ سرٹیفیکیٹ کی فی بھی بڑھا دی گئی ہے۔ کبھی دال ساگ کھا کر سفید پوشی کا بھرم رکھنے والے 750 روپے کی دال اور 260 روپے کا پیاز کیسے خریدیں؟ کیا مملکت خداداد پاکستان اسی لیے حاصل کیا گیا تھا کہ مسلمان یہاں حرام موت مرنے اور حرام کام کرنے پر مجبور ہو جائیں؟
کیا قائد اعظم نے اسی لیے الگ ملک حاصل کیا تھا کہ مسلمان ان ممالک کی طرف ہجرت پر مجبور ہو جائیں جہاں قرآن جلایا جاتا ہے مگر اپنے شہریوں کو مکمل تحفظ دیا جاتا ہے اور سہولیات دی جاتی ہیں۔
کیا پاکستان پاکستانیوں کے رہنے کی جگہ نہیں رہا؟ پاکستانیوں کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا، رب ذوالجلال! ہم پر ہماری برداشت سے زیادہ بوجھ نہ ڈال اور ہمیں آسانیاں عطا فرما۔