ڈاکٹر حمیداللہ: 84 سال کی عمر میں جنہوں نے تھائی زبان سیکھی
حمیرا علیم
ڈاکٹر حمیداللہ کو میں نے اس وقت جانا جب میں نے ان کی کتاب ‘خطبات بہاولپور’ پڑھی، ڈاکٹر غلام مرتضی کے بعد ڈاکٹر حمید میرے دوسرے استاد ہیں جن سے میں نے بہت کچھ سیکھا۔
ڈاکٹر حمیداللہ جب جامعہ عثمانیہ حیدرآباد دکن میں زیرتعلیم تھے، ایک روز خلاف معمول مقررہ وقت سے آدھا گھنٹہ زائد ہو گیا لیکن وہ کمرہ جماعت میں نہیں پہنچے، استاد اس دوران بار بار دروازے کی طرف دیکھتا رہا کہ حمیداللہ آئے اور تدریس کا سلسلہ شروع کیا جائے، بات یہ نہیں تھی کہ کمرہ جماعت میں کوئی طالب علم موجود نہیں تھا، بلکہ کمرہ جماعت میں قریباً ساٹھ، باسٹھ طالب علم موجود تھے لیکن ان کا ہونا یا نہ ہونا برابر تھا۔
وہ اپنی خوش گپیوں میں مصروف تھے، ان میں سے کسی نے بھی ذکر نہیں کیا کہ کافی وقت ہو گیا ہے تدریس کا عمل شروع کیا جائے نہ ہی ان پتھروں کو احساس تھا کہ استاد کس اضطرابی کیفیت سے گزر رہا ہے، کہ کبھی ایسا نہیں ہوا کہ حمیداللہ کبھی ایک منٹ بھی تاخیر سے آیا ہو اللہ خیر کرے، پتہ نہیں آج ایسا کیا ہو گیا ہے؟ آخر دروازے کی طرف پھر نظر گئی تو حمیداللہ سامنے کھڑا تھا۔
استاد نے تعجب سے پوچھا حمیداللہ آپ کہاں تھے؟ حمیداللہ نے کہا، استاد محترم! اگر آپ اجازت دیں تو میں اندر آ کر سارا ماجرا بیان کروں؟ استاد نے اندر آنے کی اجازت دی۔ جب وہ اندر آ گئے تو انھوں نے اپنا سوال پھر دہرایا، ان کی ظاہری حالت سے ایک تشویش بھی پیدا ہوئی کیونکہ آج حمیداللہ کا حلیہ بھی کافی بگڑا ہوا تھا؛ بالوں میں گرد، ہاتھوں اور آستینوں پر مٹی اور گارے کے نشان نظر آ رہے تھے، جوتا بھی مٹی سے بھرا ہوا تھا، آنکھوں میں نیند کے آثار نمایاں تھے۔
وہ استاد کے قریب آ کر خاموشی سے سر جھکائے کھڑے ہو گئے، ان کے ہم مکتبوں کی نگائیں ان کے چہرے پر مرکوز تھیں کہ یکایک ان کی آنکھوں سے دو موٹے موٹے آنسو نکل کر فرش کی گرد کا حصہ بن گئے، کپکپاتے ہوئے لبوں سے بڑی مشکل سے چند الفاظ نکلے: ”استاد محترم! کل میرے ساتھ ایک کربناک واقعہ پیش آیا، مغرب کی نماز کے بعد میرے والد گرامی کا انتقال ہو گیا، ہم بہن بھائی ساری رات ان کی میت کے پاس بیٹھے درود پاک اور کلمہ شہادت کا ورد کرتے رہے۔ صبح فجر کی نماز کے بعد ان کی تدفین تھی، میت اٹھاتے وقت میں اپنی کتابیں بھی ساتھ ہی لے آیا تھا، تدفین کے سلسلے میں پندرہ منٹ تاخیر ہو گئی جس کی وجہ سے میں کمرہ جماعت میں تاخیر سے پہنچا، میں معذرت خواہ ہوں کہ آپ کو میرا انتظار کرنا پڑا، میں کوشش کروں گا کہ کبھی آئندہ دوبارہ ایسا نہ ہو۔”
یہی وہ علم کی شمع کا پروانہ تھا جو بعد میں عالم اسلام کا ایک روشن ستارہ بن کر ابھرا اور اہنے علم کی روشنی سے پوری دنیا کو منور کیا۔
9 فروری 1908ء کو حیدرآباد (دکن) کے ایک ذی علم گھرانے میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے مدرسہ نظامیہ سے مولوی کامل اور جامعہ عثمانیہ سے بی اے، ایم اے اور ایل ایل بی کے امتحانات پاس کئے اور 1932ء میں جرمنی کی بون یونیورسٹی سے ڈی فل کیا۔ ان کی اعلیٰ قابلیت کے باعث انہیں بون یونیورسٹی میں لیکچرار مقرر کیا گیا۔ بعدازاں وہ پیرس آ گئے جہاں انہوں نے ڈی لٹ کی ڈگری حاصل کی۔
ڈاکٹر محمد حمیداللہ سات دہائیوں تک علم کی روشنی پھیلاتے رہے۔ وہ متعدد علمی اداروں سے وابستہ رہے۔ انہوں نے سات زبانوں میں سو سے زیادہ کتابیں اور ایک ہزار سے زیاہ مضامین تحریر کئے۔ وہ 22 زبانیں جانتے تھے، 84 سال کی عمر میں انہوں نے تھائی زبان سیکھی۔ وہ قرارداد مقاصد کی منظوری کے وقت پاکستان آئے اور اس وقت حکومت پاکستان نے ان سے اہم مشاورت اور معاونت حاصل کی۔ انہوں نے جامعہ اسلامیہ بہاولپور میں بارہ لیکچرز بھی دیئے جو خطبات بہاولپور کے نام سے مشہور ہوئے۔ ڈاکٹر محمد حمید اللہ نے قرآن پاک کا فرانسیسی زبان میں ترجمہ کیا جس کے 20 ایڈیشنز شائع ہو چکے ہیں۔ فقہ حدیث اور سیرت النبیؐ کے مختلف پہلوؤں پر لاتعداد کتابیں تحریر کیں۔
ان کا ایک بڑا کارنامہ صحیفہ ہمام ابن منبہ کی تدوین ہے۔ 101ھ میں تحریرکردہ اس کتاب کی مختلف جلدیں دنیا کے مختلف ممالک کے کتب خانوں میں محفوظ تو تھیں مگر کوئی انہیں یکجا کرنے والا نہ تھا۔ ڈاکٹر محمد حمید اللہ نے انہیں مدون کر کے شائع کیا۔
حدیث کی یہ اولین کتاب جو 58 ہجری میں لکھی گئی تھی جسے صحیفہ ہمام بن منبہ کہا جاتا ہے، اس عظیم حدیثی و تاریخی دستاویز کو انہوں نے 1300 سال بعد جرمنی میں برلن لائبریری سے دریافت کیا اور تحقیق کے بعد شائع کرایا۔
علم و تحقیق اور دعوت و تبلیغ سے ایسا رشتہ باندھا کہ رشتہ ازدواج کی فکر کی مہلت بھی نہ ملی اور امام ابن تیمیہؒ کی سنت پر عمل کرتے ہوئے گھربار کے جھگڑے سے آزاد رہے اور صرف علم کا ورثہ چھوڑا۔ عالم اسلام کی چوٹی کی جامعات میں تدریس کے فرائض انجام دیے، خصوصیت سے جامعہ استنبول سے طویل عرصہ تک متعلق رہے۔ وہ ہر سال چند ماہ وہاں گزارتے تھے۔ آپ نے 1952 سے 1978 تک ترکی کی مختلف جامعات میں پڑھایا۔
ڈاکٹر محمد حمیداللہ کی تحریروں کی بدولت امریکا، یورپ اور افریقہ میں اسلام بھی بڑی سرعت سے پھیلا اور صرف فرانس میں اسلام قبول کرنے والوں کی تعداد ایک لاکھ سے تجاوز کر گئی۔ حکومت پاکستان نے ڈاکٹر محمد حمیداللہ کو ہلال امتیاز کا اعزاز عطا کر کے اپنے اس اعزاز کی قدر و قیمت میں اضافہ کیا تھا۔
انہوں نے 1994ء میں کنگ فیصل ایوارڈ کو یہ کہتے ہوئے ٹھکرایا کہ میں نے جو کچھ لکھا ہے اللہ تعالی کی خوشنودی کے لئے لکھا ہے لہذا مجھ پر میرے دین کو خراب نہ کریں۔ فرانس کی نیشنیلٹی کو یہ کہتے ہوئے ٹھکرا دیا کہ مجھے اپنی مٹی اور اپنے وطن سے محبت ہے، مختلف زبانوں میں 450 کتابیں اور 937 علمی مقالے لکھے۔ سادگی کا یہ عالم تھا کہ اپنے برتن اور کپڑے خود دھوتے تھے۔ اسمبلی میں واش روم والی چپل پہن کر چلے جاتے تھے۔
1985 میں پاکستان نے اعلی ترین شہری اعزاز ہلال امتیاز سے نوازا تو اعزاز کے ساتھ ملنے والی رقم جو ایک کروڑ روپے بنتی تھی، اس رقم کو بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی کے شعبہ تحقیقات اسلامی کو یہ کہتے ہوئے دیا کہ اگر اس فانی دنیا میں یہ اعزاز وصول کیا تو پھر باقی رہنے والی زندگی کے لئے کیا بچے گا۔
انہوں نے "تعارف اسلام ” کے نام سے ایک شاہکار کتاب لکھی دنیا کی 22 زبانوں میں جس کے ترجمے ہو چکے ہیں۔
1946ء میں اقوام متحدہ میں ریاست حیدرآباد کے نمائندہ (سفیر) مقرر ہوئے۔ 1948 میں سقوط حیدر آباد اور انڈیا سے ریاست کے جبری الحاق پر سخت دلبرداشتہ ہوئے اور جلاوطنی کی زندگی اختیار کی اور جلا وطنی کے دوران "حیدرآباد لیبریشن سوسائٹی” کے نام سے ایک تنظیم بھی بنائی۔
1950 میں پاکستان کا پہلا قانونی مسودہ بن رہا تھا تو آپ سے رابطہ کیا گیا، آپ پاکستان تشریف لائے۔
17 دسمبر 2002ء کو ڈاکٹر محمد حمیداللہ جیکسن ولے، فلوریڈا امریکا میں وفات پا گئے جہاں وہ علاج کی غرض سے مقیم تھے۔