”لو اب دو مجھے طلاق نامہ تاکہ ابا کی پینشن اپنے نام کروا لوں”
حمیرا علیم
پاکستان کرپشن لسٹ میں 180 ممالک میں سے 139 یا شاید 140 نمبر پر ہے۔ ہمارے ہاں ہر محکمے میں اس قدر کرپشن ہے کہ اگر وئیر آفیسر رشوت قبول نہ کرے تو لوگ اسے گالیاں دیتے ہیں۔ میرے شوہر آڈٹ اینڈ اکاؤنٹس میں ہیں اور ایسی سیٹ پر ہیں جہاں ایک سائن کے لاکھوں آفر ہوتے ہیں لیکن الحمدللہ انہوں نے کبھی ایک پائی بھی قبول نہیں کی۔
یہ ایک ایسا ڈیپارٹمنٹ ہے جس کے چپڑاسی بھی کروڑ پتی ہوتے ہیں۔ پورے پاکستان کے آڈٹ اینڈ اکاؤنٹس کے کام کی وجہ سے فنانس سے متعلقہ ہر کام اس آفس میں ہوتا ہے۔ کسی کی تنخواہ کا مسئلہ ہو، پینشن نہ مل رہی ہو یا کسی کنٹریکٹر کا بل پھنس گیا ہو تو اسی آفس کا رخ کرتا ہے۔
لوگ کینٹین میں بیٹھ کر ڈیل کرتے ہیں اور یہ ڈائریکٹ ڈیلنگ نہیں کرتے بلکہ ان کے چپراسی یا کلرک سائل کو چائے پانی کے لیے لاتے ہیں اور پھر سودا طے ہوتا ہے۔ سائل بیچارہ ان کے ہاتھوں اتنا خوار ہو چکا ہوتا ہے کہ کسی بھی قیمت پر اپنا کام کروانے پر تیار ہو جاتا ہے۔ کچھ سرپھرے کمیشن کو رشوت ہی سمجھتے ہیں اور پوری کوشش کرتے ہیں کہ تھرو پراپر چینل ہی کام ہو جائے جس کی قیمت انہیں مہینوں ایک سے دوسرے ڈیسک اور ایک سے دوسرے کاغذ کی فراہمی کی صورت میں بھگتنی پڑتی ہے اور کبھی تو پوری فائل ہی گم ہو جاتی ہے۔
جو جوانمرد پوری ہمت اور ارادے کے ساتھ فیصلہ کر کے آتا ہے کہ رشوت ہرگز نہیں دے گا ہاتھ جوڑ کر مطلوبہ رقم پیش کرتا ہے اور اپنی جان چھڑاتا ہے۔
میرے شوہر کے پاس کچھ عرصہ پینشن ڈیپارٹمنٹ بھی رہا وہاں کچھ ایسے واقعات ہوئے کہ حیرت ہوئی لوگ پیسے کی خاطر کتنا گر جاتے ہیں۔
ایک خاتون آفس میں آئیں اور فرمانے لگیں: "میں چاہتی ہوں کہ میرے والد کی پینشن میرے نام ہو جائے، کسی نے آپ کا ذکر کیا تھا کہ آپ کے پاس ایسے کیسز ہوتے ہیں اور آپ ہی میرا مسئلہ حل کر سکتے ہیں، پلیز میرا کام کر دیجئے۔”
"محترمہ یہ تو سیدھا سا کیس ہے جب تک آپ کے والد زندہ ہیں ان کی پینشن آپ کے نام نہیں ہو سکتی۔”
"پر سر! ان کی حالت بہت بری ہے، وہ تو بینک تک نہیں جا سکتے، آپ کچھ تو کیجئے نا!” اس نے بڑے پیار سے کہا۔
” اچھا تو اگر آپ اتنی ہی مجبور ہیں تو ایسا کیجئے والد کا ڈیتھ سرٹیفیکیٹ لے آئیے میں آپ کا کام کر دوں گا۔” جس پر خاتون منہ بنا کر چلی گئیں۔
ذرا سوچیے کیا زمانہ آ گیا ہے کہ اولاد پیسے کی خاطر والدین کے مرنے کی فکر میں ہے۔
ایک اور خاتون اپنے شوہر کے ساتھ آئیں اور فرمانے لگیں: "کیانی صاحب! میرے والد کے انتقال کو تین سال ہو گئے ہیں، میں ڈائیورسی (مطلقہ) ہوں دو بچے ہیں میں یہ چاہتی ہوں کہ والد کی پینشن میرے نام ہو جائے۔”
"کوئی مسئلہ نہیں ہے محترمہ! آپ سارے ڈاکیومینٹس تو لائی ہوں گی ساتھ میں ؟” کیانی صاحب نے جواب دیا۔
"کون سے ڈاکیومینٹس سر؟ مجھے تو کچھ معلوم نہیں آپ گائیڈ کر دیجئے میں کل ہی سب کچھ لے کر حاضر ہو جاؤں گی۔” خاتون بولیں۔
"آپ کے والد کا ڈیتھ سرٹیفیکیٹ، ان کی پینشن بک کی کاپی اور آپ کا طلاق نامہ۔” کیانی صاحب نے بتایا۔
” جی! باقی سارے کاغذات تو مل جائیں گے سر، پر میرے پاس طلاق نامہ نہیں ہے اصل میں میری ابھی علیحدگی ہوئی ہے صرف۔” خاتون نے گڑبڑا کر شوہر کی طرف دیکھ کر کہا۔ شوہر کے چہرے کا رنگ بھی اڑ گیا۔
کیانی صاحب نے معنی خیز انداز میں دونوں کو دیکھا اور سر ہلا دیا۔
"دیکھیے اس کے بغیر تو آپ کا کام نہیں ہو سکتا۔ صرف نابالغ کنواری، طلاق یافتہ یا بیوہ بیٹی کو ہی پینشن منتقل کی جا سکتی ہے، اگر آپ شادی شدہ ہیں تو ایسا ممکن نہیں ہے۔”
"سر آپ تو کچھ بھی کر سکتے ہیں، دو سال کی پینشن تقریباً 5 لاکھ بنتی ہے میں 3 لاکھ دینے کو تیار ہوں آپ بس میرا کام کر دیں۔” لڑکی نے لجاجت سے کہا۔
"بی بی! آپ کو شاید سمجھ نہیں آیا ہمیں فائل میں سارے کاغذات لگا کر آگے بھیجنے ہوتے ہیں، ویسے بھی آج کل ذرا سختی ہے۔ پچھلے ماہ کچھ ایسے ہی کیسز پکڑے گئے ہیں جن میں پینشنر کی وفات کو سالوں گزر چکے تھے اور گھر والے پینشن کھا رہے تھے یا پینشنر زندہ ہے اور کسی بیٹی کے نام پینشن منتقل کر دی گئی ہے اس لئے سوری میں اس معاملے میں کچھ نہیں کرسکتا۔” یہ کہہ کر کیانی صاحب تو اٹھ کر چلے گئے جبکہ خاتون شوہر پر برسنے لگی۔
"لو اب دو مجھے طلاق نامہ تاکہ میں ابا کی پینشن اپنے نام کروا لوں، کہا بھی تھا ناجائز کام ہے مشکل ہے پر تمھیں سمجھ ہی نہیں آ رہی تھی، اب خوش ہو!”
حیرت ہے اس بے غیرت مرد پر جو ذرا سی رقم کی خاطر اپنی بیوی کو طلاق یافتہ ثابت کرنے پہ تلا ہوا تھا۔
بل پاس کروانے کے لیے یا تو اپروچ چاہیے ہوتی ہے یا پھر فائل کو پہیے لگانے پڑتے ہیں اور یہ پہیے اسٹاف کی کارز کو رواں رکھتے ہیں۔
میرے شوہر کے کولیگ اکاؤنٹس آفیسر ہیں مگر شہر میں دو کوٹھیوں، دو کاروں اور چار دکانوں کے مالک ہیں اور یہ سب کچھ انہوں نے اسی سیٹ پر رہ کر بنایا ہے مگر جیسے کما رہے تھے ویسے ہی نکل بھی رہا تھا۔ چھوٹی بچی پر ابلتا پانی گر گیا اور وہ ساری کی ساری جل گئی۔ بیگم کی ریڑھ کی ہڈی کا مہرہ ٹوٹ گیا چنانچہ وہ بستر پر پڑیں ہیں۔ بڑی بیٹی کی منگنی پچھلے سال دھوم دھام سے کی جو چند ماہ ہی چل سکی، اس سب کے باوجود وہ مزید کوٹھیاں اور دکانیں خریدنے میں مصروف ہیں۔
گروسری کرنے جائیں تو بل میں ایک دو چیزیں ڈبل چارج کی ہوتی ہیں۔ روزانہ لاکھوں کمانے والے چند روپے کی کرپشن کر کے اپنی حلال کمائی کو حرام کر لیتے ہیں۔ سبزی پھل والے بھی صاف چیز دکھا کر گلی سڑی چیز دیتے ہیں۔ جس کا جہاں داو لگ جائے ہاتھ دکھا جاتا ہے۔
کبھی کبھی مجھے لگتا ہے ہم میں پہلی تمام تباہ شدہ اقوام والی تمام خصوصیات پائی جاتی ہیں۔ اگر نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی دعا نہ ہوتی کہ اے اللہ! تو میری امت کو مکمل طور پر تباہ نہ کرنا تو یقیناً ہم پر بھی بنی اسرائیل کی طرح عذاب در عذاب نازل ہوتے۔
ویسے کچھ جھٹکے تو اللہ تعالیٰ ہمیں لگاتے ہی رہتے ہیں کبھی سیلاب کبھی زلزلہ کبھی کوئی وبا اور کبھی بے رحم اور کرپٹ حکمران پر آفرین ہے ہم پر بھی، ہم بھی بنی اسرائیل کی طرح عذاب دیکھ کر ہی مسلمان بن جاتے ہیں اور اس کے ٹلتے ہی اپنی پرانی روش پر لوٹ آتے ہیں۔ اللہ تعالٰی ہم پر رحم فرمائے!