طلاق یا خلع: اس بڑھتے ہوئے رجحان کی وجوہات کیا ہیں؟
آصف علی درانی
کسی زمانے میں جب ہم چھوٹے ہوا کرتے تھے تو اکثر ہمیں یہ پہیلی سننے کو ملتی کہ وہ کون سی چیز ہے جو اسلام میں حلال ہے لیکن اللہ رب العزت کو پسند نہیں۔ بہت سوچ بچار کے بعد جو جواب آتا تو وہ طلاق ہوتا کیونکہ طلاق اسلام میں حلال تو ہے لیکن اللہ رب العزت کو پسند نہیں، لیکن بدقسمتی سے اگر دیکھا جائے تو اس وقت یہی ناپسندیدہ عمل ہمارے معاشرے میں انتہائی تیزی کے ساتھ سرایت کرتا چلا جا رہا ہے کیونکہ اس وقت پاکستان میں طلاق کی شرح میں حیران کن طور پر اضافہ دیکھنے میں میں آ رہا ہے۔ اگر یہ سلسلہ اسی رفتار سے جاری رہا تو یہ مستقبل میں ہمارے خاندانی نظام کی جڑوں کو کمزور کر کے رکھ دے گی۔
دوسری طرف اگر دیکھا جائے تو خاندانی نظام کی مضبوطی ہی معاشرے کی کامیابی کی ضامن ہے۔ مضبوط خاندانی نظام ہی نسل انسانی کی بقاء، بچوں کی نشوونما، پرورش اور درست سمت میں تربیت کے لیے بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔ ناکام شادی صرف دو افراد کے درمیان علیحدگی کا نام ہی نہیں بلکہ یہ اس گھرانے کی نئی آنے والی نسلوں کو بھی بری طرح متاثر کرتی ہے۔
اگر دیکھا جائے تو نکاح صرف سنت ہی نہیں بلکہ اس سے نسل انسانی کی بقاء اور بہت سارے گناہوں سے بچنے کی حکمت اس میں پوشیدہ ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نکاح کے بندھن میں بندھنے کے بعد میاں بیوی ایک دوسرے کے ساتھ تاحیات اس بندھن میں جکڑے رہتے ہیں اور اس بندھن کی ساکھ کو برقرار رکھنے کے لیے ہر طرح کی رنجشوں، تکرار کو خندہ پیشانی کے ساتھ برداشت کرتے ہیں۔
لیکن بدقسمتی سے اگر دیکھا جائے تو موجودہ دور میں والدین بڑے ارمانوں اور پیار سے اپنے بچوں کی شادیاں کرا تو دیتے ہیں لیکن بعض وجوہات اور غلطیوں کی وجہ سے یہ رشتہ زیادہ دیر تک برقرار نہیں رہتا اور وہ لڑکی جس کو بڑے ارمانوں کے ساتھ بیاہ کر لایا گیا گیا ہوتا ہے کچھ مہینے یا سال گزرنے کے بعد طلاق کا پروانہ ہاتھ میں تھما کر واپس اپنے باپ کے گھر بھجوا دی جاتی ہے۔
آخر ایسی کون سی وجوہات ہو سکتی ہیں جس کی وجہ سے شادی کا یہ عظیم بندھن پل بھر میں ختم ہو جاتا ہے۔ اس حوالے سے چند دنوں پہلے جب میری ملاقات پشاور کی معروف خاتون ایڈوکیٹ مہوش محب کاکاخیل سے ہوئی تو ان کا کہنا تھا کہ بعض ایسی وجوہات ہیں جن کو شادی سے پہلے والدین یا خود مرد نہیں دیکھتے یا ان کو حل نہیں کرتے جس کی وجہ سے شادی کے بعد میاں بیوی کی نہیں بنتی اور وہ ایک دوسرے سے الگ ہونے کا سوچتے ہیں؛ سب سے پہلے اور بنیادی وجہ یہ ہے کہ مرد اپنی بیوی کے ازدواجی حقوق ادا نہیں کر پاتا جس کی وجہ سے ان کے درمیان جنسی تعلق قائم نہیں ہوتا اور شادی کے بعد پھر بانجھ پن کا مسئلہ سامنے آتا ہے جس کی وجہ سے بعض خواتین تو خاموشی سے سب کچھ برداشت کرتی ہیں اور بعض خواتین ایسی ہوتی ہیں جو اس بندھن کو توڑ کر علیحدگی اختیار کر لیتی ہیں۔
دوسری وجہ ان کے خیال میں یہ ہے کہ کم عمری میں والدین اپنے بچوں کی شادیاں کرا دیتے ہیں جو بعد میں اپنی گھریلو ذمہ داریاں پوری نہ کرتے ہوئے علیحدگی میں ہی اپنی عافیت سمجھتے ہیں۔
بعض مرد ایسے بھی ہوتے ہیں جو ذہنی بیماری کا شکار ہوتے ہیں اور اکثر اپنی خواتین کو تشدد کا نشانہ بناتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ تشدد سے تنگ آ کر علیحدگی اختیار کر لی جاتی ہے۔ ایسے واقعات زیادہ تر امیر گھرانوں میں پیش آتے ہیں۔
مہوش صاحبہ نے مزید بتایا کہ بعض میاں بیوی نوکری کرتے ہیں اس کی وجہ سے بھی دونوں کی نہیں بنتی اور طلاق ہو جاتی ہے لیکن ایسے واقعات بہت کم دیکھنے کو ملتے ہیں۔ ہاں ایسے واقعات بھی رونما ہوتے ہیں جہاں پر مرد بیوی کے ہاتھ کی کمائی کھاتا ہے یعنی دوسرے معنوں میں خاوند گھر میں بیٹھ کر اپنی بیوی کو نوکری پر مجبور کرتا ہے۔ ہمارے اس معاشرے کے اندر طلاق کے بڑھتے ہوئے رجحان کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ میاں بیوی میں سے کوئی ایک پڑھا لکھا اور ایک ان پڑھ ہوتا ہے جس کی وجہ سے دونوں کی سوچ میں بھی کافی حد تک فرق ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ آپس میں نہ بننے کی وجہ سے اور ترجیحات میں فرق کی وجہ سے علیحدگی یعنی طلاق کو ہی ترجیح دی جاتی ہے۔
ایڈوکیٹ صاحبہ کا مزید کہنا تھا کہ بعض اوقات ایسے بھی ہوتا ہے کہ ماں باپ بچوں کی مرضی کے خلاف ان کی شادی کرا دیتے ہیں جو زیادہ دیر تک کارآمد ثابت نہیں ہوتی اور نتیجہ طلاق یا خلع کی شکل میں سامنے آتا ہے۔
بعض کیسز ایسے بھی آتے ہیں جن میں لڑکی یا لڑکا کسی اور کو پسند کرتا ہے لیکن والدین اس کی مرضی کے خلاف شادی کرا دیتے ہیں ایسے کیسز میں خلع تو نہیں ہوتا لیکن خاتون اپنے شوہر اور بال بچوں کو چھوڑ کر کسی دوسرے مرد کے ساتھ گھر سے بھاگ جاتی ہے۔ بعض ایسے واقعات بھی ہوتے ہیں جہاں پر والدین اپنے بچوں کی ازدواجی زندگی میں مداخلت کرتے ہیں اور نتیجہ وہی طلاق یا خلع کی شکل میں سامنے آتا ہے۔
ویسے اگر دیکھا جائے تو ہمارے معاشرے کے اندر یہ بات بہت عام ہے کہ شادی کو ہی ہر مسئلے کا حل سمجھا جاتا ہے یعنی اگر کسی کا بیٹا یا بیٹی کسی طرح کے ذہنی انتشار کا شکار ہے تو بڑے آرام سے انہیں شادی کا مشورہ دیا جاتا ہے کہ اس کی شادی کر دو سب ٹھیک ہو جائےگا۔ کوئی لڑکا اگر غیرذمہ دارانہ رویے کا مظاہرہ کر رہا ہے تو اس کا علاج بھی شادی میں ہی ڈھونڈا جاتا ہے۔ اور یہی کہا جاتا ہے کہ جب سر پر ذمہ داری پڑے گی تو خود ہی ٹھیک ہو جائے گا۔ اب اگر اسے ذمہ داری کا احساس شادی کے دس سال بعد ہو اور اس دوران بیوی بچے رل جائیں یا وہ فوراً ہی ذمہ داری سے گھبرا کر رشتہ توڑنے پر اٹک گیا تو اس کا ذمہ دار پھر کون ہو گا؟ ہمارے معاشرے میں اکثر والدین اپنے بچوں کی شادیاں کرنے کے بعد یہ سمجھتے ہیں کہ انھوں نے اپنا حق پورا کر دیا اور وہ اپنی ذمہ داریوں سے سبکدوش ہو جاتے ہیں لیکن صرف شادی کرانا ہی نہیں ہوتا اس کے علاوہ بھی بچوں کے اور بھی بہت سے حقوق ہوتے ہیں۔
کیا بچوں کی تربیت صحیح ہوئی ہے؟ کیا شادی کے وقت بچوں کی پسند کا خیال رکھا گیا ہے؟ کیا بچوں کو گھریلو ذمہ داریوں کا احساس دلایا گیا ہے؟ کیا بچوں کو اچھے اور برے حالات کا مقابلہ کرنا سکھایا گیا ہے؟
اگر ان سب کا جواب ہاں میں ہے تو پھر تو یقیناً سب مسائل کا حل شادی میں ہی مضمر ہے اور اگر جواب نا میں ہے تو پھر ان سب مسائل کا حل شادی میں ڈھونڈنا بے وقوفی اور کم عقلی کے سوا کچھ نہیں ہو سکتا کیونکہ ایسی شادیاں مسائل کم کرنے کی بجائے اور بڑھا دیتی ہیں اور نتیجہ دو خاندانوں کے درمیان دشمنی، نفرت اور عداوت کی شکل میں سامنے آتا ہے کیونکہ ایسی شادیوں میں میاں بیوی تھوڑا عرصہ ساتھ رہ کر ایک دوسرے کو یا تو ہمیشہ کے لیے اپنا لیں گے اور یا طلاق یا خلع کی شکل میں ہمیشہ کے لیے ایک دوسرے سے نہ صرف جدا ہو جائیں گے بلکہ اپنے پیچھے دو خاندانوں کو ایک نہ ختم ہونے والی دشمنی کی آگ کی طرف دھکیل دیں گے۔