لائف سٹائلکالم

معنی خیز قانون سازی، عدلیہ آزاد ہو تو انصاف کی فراہمی یقینی ہے

ارم رحمٰن

دنیا بدل گئی ہمارے قوانین نہ بدلے؛ 1947 سے اب تک عدلیہ کا نظام مضبوط نہیں ہو سکا کیونکہ سیاسی نظام مضبوط نہیں، مارشل لاء لگتے رہے اور جمہوریت داؤ پر لگی رہی لیکن جب بھی اقتدار سیاسی پارٹیوں کو ملا انھوں نے عدلیہ کو اپنے مفاد کے لیے استعمال کرنا چاہا۔

یہ بات طے ہے کہ پوری دنیا میں عدلیہ اپنے ملک کے حالات کے مطابق ہی کام کرتی ہے یعنی عدلیہ کا نظام بھی وہی ہوتا ہے جو ملکی نظام چلانے والے بناتے ہیں، اس میں عدلیہ کا اپنا تو کوئی عمل دخل نہیں ہوتا، عدلیہ کی کامیابی اور ناکامی کا انحصار اس کے فیصلوں پر عمل درآمد کروانے والوں پر ہوتا ہے، پاکستان میں جب بھی سیاسی پارٹی اقتدار میں آئی ہے وہ عدلیہ کا "سیاسی دور” کہلایا ہے۔

ابھی تک انگریزوں کے دور کا عدالتی نظام اور تھانہ کلچر ہی چل رہا ہے، بدلتے دور کے ساتھ نئی اصلاحات اور ترامیم نہیں کی گئیں، عدلیہ کو کبھی بھی کھل کر فیصلے کرنے کا موقع نہیں ملا کیونکہ اس گلے سڑے نظام میں شروع سے آخر تک اتنی قباحتیں ہیں کہ درمیان میں کوئی درستگی کرنا بھی چاہے تو ممکن نہیں۔ سارا نظام لالچ اور خود غرضی کی بنیاد پر چل رہا ہے اقربا پروری رشوت عروج ہر ہے۔

کسی بھی مقدمے میں بالکل نچلی سطح سے جائزہ لیا جائے تو منشی اور چپراسی، محرر اور اہلکار، نقل برانچ اور ہر طرح کا عملہ سائل سے اپنا حصہ مانگتا ہے، سائل جتنی بھی مشکل میں ہو اس کا مقدمہ التوا میں پڑا رہے گا جب تک وہ متعلقہ عملے کی مٹھی گرم یا مٹھائی فراہم نہ کرے۔ مٹھائئ کا مطالبہ اس وقت کیا جاتا ہے جب سائل ساری صعوبتیں اٹھا کر اپنا مقدمہ عدالت میں پیش کرنے کے قابل ہو جائے یا پھر وہ جلدی جلدی تاریخیں حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے۔

پرانے تھانہ کلچر نے زیادہ تر ایسے ملزموں کو مجرم ہونے سے بچانے میں بہت تعاون کیا ہے جنھوں نے ان کی ڈیمانڈ بروقت مانی ہے، سائل اتنا بے بس ہوتا ہے کہ کچھ بھی ماننے کو تیار ہو جاتا ہے۔ اکثر عدم ثبوت پر مجرموں کو باعزت بری کیے جانے میں جج صاحبان کا نہیں پولیس اہلکاروں اور پھر وکالت کی فسوں گری ہوتی ہے۔

ججز کی تعداد مقررہ تعداد سے کافی کم ہوتی ہے اور مقدمات کا انبار تاخیر کا سبب بنتا ہے، سول کورٹ میں ججز صاحبان کو روزانہ کی بنیاد پر دو سو یا اس سے زائد مقدمات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ 2020 تک میں 18 لاکھ تک مقدمات زیر التوا تھے۔ اور ججز کم ہونے کے ساتھ کام کی رفتار، ملک میں ہونے والی چھٹیوں کی مقدار اور ہولیس کا لیت و لعل، یہ سب مل کر ہر مقدمہ اتنا طویل کر دیتے ہیں کہ بچہ جوان، اور جوان بوڑھا اور اکثر بوڑھے مرحوم ہو جاتے ہیں۔ ایسا اکثر جائیداد کے مقدمات میں ہوتا۔

سائلین کی بدنیتی اپنی جگہ لیکن پاکستان کے نظام علیہ میں سقم اتنے زیادہ ہیں کہ حقدار کو حق ملتا ہی نہیں اور اگر ملتا بھی ہے تو اس قدر دیر ہو چکی ہوتی ہے کہ اس انصاف کا ہونا بھی زخموں کا مرہم نہیں بن پاتا۔

کہاوت ہے Justice delayed justice denied، جب انصاف ملنے میں بہت زیادہ دیر ہو جائے تو سمجھ لیجیے کہ انصاف نہیں مل سکا، "دادرسی کا مطلب ہی فوری انصاف ہے، مجرم اپنے اثر رسوخ یا پیسے کے بل بوتے پر کس قدر ناانصافی کرتے ہیں، پاکستانی عوام ان تمام حربوں سے اچھی طرح واقف ہے۔

عوام دعا مانگتی ہے کہ اللہ انھیں تھانے کچہری سے محفوظ رکھا جائے کیونکہ وقت اور پیسے کے زیاں کے باوجود اکثر انصاف نہیں ملتا کیونکہ جج نے جن دلائل پر فیصلہ کرنا ہوتا ہے وہ ہی بوگس اور کمزور ہوں گے تو جج کیا کر سکتا ہے؟ اس کے لیے پولیس کا اپنی کاروائیاں شفاف طریقے سے کرنا لازمی ہے، دوسرا عملہ بھی ہمدرد اور معاون ثابت ہو۔

پاکستان میں اس وقت نچلی سطح پر انصاف کی فراہمی کا نظام بے حد تضاد کا شکار ہے، جانبداری اور اقربا پروری، غیر پیشہ ورانہ رویے انصاف کی راہ میں رکاوٹ ہیں، سول اور فوجداری قوانین میں اصلاحات کی اشد ضرورت ہے۔

بین الاقوامی رینکنگ میں پاکستان میں انصاف کی فراہمی بہ آسانی دستیاب نہیں اور وہ تمام اصلاحات اور ترامیم جن سے مقدمات جلد از جلد نمٹا دیئے جائیں, ان کا فقدان ہے، چھوٹے مقدمات اگر چھوٹی عدالتوں میں ہی بھگت جایا کریں تو بڑی عدالتوں کا وقت بچے گا؛ دیگر مقدمات کو نمٹانے کے لیے پورے نظام کو پابند کرنا پڑے گا، پولیس ثبوت، گواہان، فرانزک رپورٹس سب مدارج شفاف طریقے سے طے کرنے ہوں گے۔

عدلیہ کی کارکردگی پر ایک عالمی تحقیق جو 128 ممالک پر کی گئی اس کے مطابق پاکستان کا نمبر 120واں ہے، نیپال کا 61واں، سری لنکا 66واں، انڈیا 69واں اور ڈنمارک پہلے نمبر پر ہے۔

ان حالات کے پیش نظر فل ریفرنس کورٹ بننا چاہیے تاکہ ہر ممکنہ اور ضرورت کے مطابق قانون میں اصلاحات اور ترامیم کی جا سکیں تاکہ تمام فیصلے درست طریقے سے بروقت ہو سکیں۔

معنی خیز قانون سازی کی جائے، عدلیہ اپنے فیصلوں میں آزاد ہو، سیاسی معاملات سے دور رہے، ازخود نوٹس لے اور مقدمات متعلقہ ہائی کورٹ کو بھیج سکے۔

ملزمان کی عدالتی ٹرائل کے ذریعے مجرم ثابت ہونے کا امکان بالکل کم رہ جاتا ہے اور ان کے جرم کو ثابت کرنے کی  تبدیلی کی شرح انتہائی کم ہے اور جج کسی قسم کا پابند نہیں۔

آخر میں یہ حقیقت کہ جس قوم میں فوری اور شفاف انصاف کا تصور ہی موجود نہیں ہو گا وہاں مجرموں کو جرم کرنے  کے لیے کھلا میدان میسر ہوتا ہے۔

نوٹ: ارم رحمٰن ایک وکیل رہ چکی ہیں، اس تحریر میں شامل آراء کو ان کا ذاتی تجربہ بھی سمجھا جا سکتا ہے تاہم ادارہ ان کے ساتھ مکمل متفق ہو، یہ ضروری نہیں۔

Erum
ارم رحمٰن بنیادی طور پر ایک شاعرہ اور کہانی نویس ہیں، مزاح بھی لکھتی ہیں۔ سیاست سے زیادہ دلچسپی نہیں تاہم سماجی مسائل سے متعلق ان کے مضامین نہ صرف ملکی سطح پر بلکہ پڑوسی ملک سمیت عالمی سطح کے رسائل و جرائد میں بھی شائع ہوتے رہتے ہیں۔
Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button