عبدالمعید زبیر
انسان کو اللہ تعالیٰ نے جان، مال اور عزت و آبرو کی صورت میں جو کچھ عطا کیا، وہ ان کا مالک نہیں بلکہ امین ہے۔ یہ سب اللہ تعالیٰ کی نعمتیں ہیں اور انسان کو ان نعمتوں کا نگہبان بنایا گیا ہے۔ ان نعمتوں میں سے ایک بہت بڑی نعمت زندگی ہے۔ یہ ایسی نعمت ہے، جس کا کوئی بدل نہیں۔ کہتے ہیں کہ "جان ہے تو جہان ہے” جو ایک دفعہ جانے کے بعد کبھی واپس نہیں آتی۔ انسان یہ نعمت اپنی محنت اور کاوش سے حاصل نہیں کرتا؛ بلکہ یہ تو محض خالق کائنات کا عطیہ ہے۔
اسلام نے ہمیں یہ بھی بتایا کہ اللہ تعالیٰ کی ان نعمتوں کے ساتھ ہمارا سلوک کیسا ہونا چاہئے۔ اللہ تعالیٰ سورۃ البقرہ میں ارشاد فرماتے ہیں کہ {وَلَا تُلْقُوْا بِاَيْدِيْکُمْ اِلَی التَّهْلُکَةِ} "اور اپنے ہی ہاتھوں خود کو ہلاکت میں نہ ڈالو۔” اسی طرح سورۃ النساء میں فرماتے ہیں کہ {ولَا تَقْتُلُوْا اَنْفُسَکُمْ} "اور اپنی جانوں کو مت ہلاک کرو۔” پھر اسی آیت کے بعد نافرمانی کا انجام بھی ذکر فرمایا کہ "جو کوئی تعدِّی اور ظلم سے ایسا کرے گا تو ہم عنقریب اسے (دوزخ کی) آگ میں ڈال دیں گے۔”
حیات انسانی کی حفاظت کا حکم اس لیے دیا جا رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی جسم و جان کے حقیقی مالک ہیں۔ جب ہم مالک ہی نہیں تو اس میں کوئی تصرف کیسے کر سکتے ہیں۔ لہذا جو مالک ہو گا، اسی کا حکم چلے گا۔ جیسا کہ سورۃ طہٰ میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں کہ ”اسی زمین سے ہم نے تمہیں پیدا کیا اور اسی میں تمہیں لوٹائیں گے اور (آخرت میں) اسی سے تمہیں دوبارہ (زندہ کر کے) نکالیں گے۔
اسی طرح سورۃ الواقعہ میں فرمایا کہ ”بھلا بتاؤ کہ تم جو نطفہ (رحم میں) گراتے ہو، کیا تم اُس سے (انسان کی) تخلیق کرتے ہو یا ہم پیدا کرنے والے ہیں، ہم ہی نے تمہارے درمیان موت (کا وقت) مقدر فرمایا ہے اور ہم عاجز نہیں ہیں کہ تمہارے بدلے میں تم جیسے اور پیدا کر دیں اور تمہیں از سرِنو پیدا کر دیں جس کو تم بالکل نہیں جانتے اور بے شک تم پہلی پیدائش کو خوب جانتے ہو تو کیوں سبق حاصل نہیں کرتے۔”
اسی طرح متعدد احادیث مبارکہ میں بھی بکثرت ایسے مضامین ملتے ہیں۔ بخاری شریف میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ "آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جو شخص اپنی جان کو کوئی چیز چبا کر ختم کر لیتا ہے تو وہ دوزخ میں بھی (ہمیشہ) اسی طرح خود کو ختم کرتا رہے گا، اس طرح جو شخص اپنی جان کو گڑھے وغیرہ میں پھینک کر ختم کرتا ہے تو وہ دوزخ میں بھی ایسے ہی کرتا رہے گا، اور جو شخص اپنی جان کو پھانسی کے ذریعے ختم کرتا ہے تو وہ دوزخ میں بھی ایسے ہی کرتا رہے گا۔” اسی طرح بخاری و مسلم میں حضرت ثابت بن ضحاک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ "حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”جس شخص نے کسی بھی چیز کے ساتھ خودکشی کی تو وہ جہنم کی آگ میں (ہمیشہ) اسی چیز کے ساتھ عذاب دیا جاتا رہے گا۔”
نبوی دور میں بھی جنہوں نے ایسا عمل کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کا جنازہ پڑھانے سے انکار کیا جیسا کہ مسلم شریف کی روایت ہے کہ حضرت جابر بن سمرۃ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ "نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے ایک شخص لایا گیا جس نے اپنے آپ کو نیزے سے ہلاک کر لیا تھا، پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کی نماز جنازہ نہیں پڑھائی”۔ آئمہ کرام نے بھی یہی فتویٰ صادر فرمایا کہ خودکشی گناہ کبیرہ ہے، علماء کرام خودکشی کرنے والے کا جنازہ پڑھنے یا پڑھانے سے اجتناب برتیں تاکہ اس عمل کی حوصلہ شکنی ہو سکے۔
آئے دن خودکشیوں کے واقعات پڑھنے، دیکھنے اور سننے کو ملتے ہیں، کہیں تنگ دستی کی وجہ سے تو کہیں گھریلو ناچاقیوں کی وجہ سے، کہیں پسند ناپسند کے رشتوں کی وجہ سے تو کہیں کسی معاملے میں غیرت کی وجہ سے لوگ مرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ خودکشیاں کرتے ہیں۔ ایسے حالات میں ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ریاست اس پر ایک مہم چلاتی، لوگوں کو حوصلہ اور سہارا فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ ان کو شعور دیتی، اس کی نفرت ان کے دلوں میں بٹھاتی، اس کے انجام سے لوگوں کو ڈراتی، مگر 23 دسمبر کو یہ خبر پڑھنے کو ملی کہ "پاکستان میں خودکشی کی کوشش کرنا اب جرم نہیں رہا۔ جی ہاں! یہ درست ہے۔
تفصیل اس امر کی یہ ہے کہ مجموعہ تعزیرات پاکستان کی دفعہ 325 اور ضابطہ فوجداری میں سے متعلقہ مندرجات کو حذف کرنے کا قانون پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں سے منظور ہوا۔ جس کے بعد صدر پاکستان نے 23 دسمبر بروز جمعہ اس قانون کی توثیق کر دی۔ جس میں وجہ یہ بیان کی گئی کہ چونکہ وہ ذہنی اور نفسیاتی عارضہ میں مبتلا ہونے کے سبب ایسے فعل کا مرتکب ہوتا ہے لہذا ناکامی کی صورت میں کوئی سزا نہیں ہو گی۔
حالانکہ عدالت جب کسی مجرم کو سزا دیتی ہے تو وہ اس کا ہر پہلو سے جائزہ لیتی ہے، شہادتوں کو دیکھتی ہے کہ آیا وہ نفسیاتی عارضے میں مبتلا تھا یا نہیں۔ پھر وہ فیصلہ کرتی ہے۔ لیکن اگر اسے بالکل آزاد چھوڑ دیا جائے تو یہ کسی بھی صورت میں معاشرے کے لیے مفید نہیں رہے گا۔ ورنہ اس طرح تو پھر یہ بھی قانون بنانا چاہیے کہ اگر خودکش بمبار مواد چلانے میں ناکام رہے تو اسے بھی ذہنی و نفسیاتی مریض کہہ کر چھوڑا جائے حالانکہ وہاں ایسی بات کوئی نہیں کرے گا۔
حکومت کی ذمہ داری صرف سیاسی انتقام لینا یا ایک دوسرے کو نیچا دکھانا نہیں ہوتا بلکہ لوگوں میں بھلائی کی طرف رغبت پیدا کرنا اور انہیں برے کاموں سے روکنا بھی ہوتا ہے تاکہ برائیوں کا سدباب ممکن ہو سکے۔ اللہ تعالیٰ سورۃ الحج میں فرماتے ہیں کہ "اہلِ حق وہ لوگ ہیں کہ اگر ہم انہیں زمین میں اقتدار دے دیں (تو) وہ نماز (کا نظام) قائم کریں اور زکوٰۃ کی ادائیگی (کا انتظام) کریں اور (پورے معاشرے میں نیکی اور) بھلائی کا حکم کریں اور (لوگوں کو) برائی سے روکیں۔” مگر یہاں سرعام نہی عن المنکر سے روگردانی کی جا رہی ہے بلکہ اسے قانون جواز فراہم کیا جا رہا ہے۔
باعث شرم بات ہے کہ نت نئے باطل توجیہات کو ترجیح دیتے ہوئے یکے بعد دیگرے ایسے قوانین وضع کر رہے ہیں جو کسی طور اسلامی ریاست کے بنیادوں اصولوں سے مطابقت نہیں رکھتے۔ اہل اقتدار یہ بھول رہے ہیں کہ اقتدار اعلی کا حقیقی مالک تو وہی ذات باری تعالی ہے جس کے متعین اور مقررکردہ احکامات کے خلاف بیرونی ایماء پر چند ملین ڈالرز کے عوض قانون سازیاں کی جا رہی ہیں. یاد رہے کہ وہی رب یہ فرماتا ہے کہ جس نے ہم سے روگردانی کی ہم اس پر معیشت تنگ کر دیتے ہیں.
کاش کہ ارباب اقتدار و اختیار یہ فکر کریں کہ آخر مملکت خداداد آج ایسی معاشی دگرگوں حالت کا شکار ہے تو کیا اس کا سبب ان کے ایسے اقدامات ہی تو نہیں ہیں؟
سوچنے کی بات ہے، کیا ہم نے تہیہ کر لیا ہے کہ پاکستان میں ایک ایک کر کے شرعی احکام کو روند کر ہی دم لیں گے۔ آئے روز جنسی درندگی، فحاشی اور عریانی زور پکڑ رہی ہے اور ریاست ان کی روک تھام یا حوصلہ شکنی کرنے کی بجائے اس کو پرموٹ کر رہی ہے، مزید اس کے جواز کے لیے قانون سازی کر رہی ہے۔ کیا ہم اس بات کے متحمل ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی ناراضی یا اس کا عذاب برداشت کر سکیں، اس کے خلاف جنگ کر سکیں، اس کی طاقت کو للکار سکیں؟
بحیثیت مسلمان ہماری التجا ہے کہ سیاسی جماعتیں اور ارباب اقتدار اللہ سے ڈریں۔ اسلامی ریاست کو درست ڈگر پر چلائیں۔ امر بالمعروف و نھی عن المنکر کا فریضہ کماحقہ سرانجام دیں۔ بصورت دیگر جہاں اللہ رحمن و رحیم ہے، ڈھیل دیتا ہے تو وہاں وہ شدید العقاب بھی ہے۔
پھر بقول شاعر
تمہاری داستاں تک نہ ہو گی داستانوں میں!