محمد فہیم
عمران خان کے دور اقتدار میں عوام کا درد رکھنے والی سیاسی جماعتوں نے اتحاد کرتے ہوئے ملک میں بڑھتی مہنگائی کی شرح کے خلاف علم بغاوت بلند کیا اور عوام کی مہنگائی سے جان چھڑانے کیلئے مہنگائی مکاﺅ مارچ اور نہ جانے کن کن نعروں کے ساتھ احتجاجی تحریک شروع کر دی۔
اس وقت جب ملک بھر میں آٹے کی قیمت مسلسل بڑھتی جا رہی تھی اور آٹا فی کلو 70 روپے سے بھی تجاوز کر گیا تھا تو پی ٹی آئی مخالف ان سیاسی جماعتوں کے مطابق عوام کی کمر ٹوٹ گئی تھی، پیٹرول کی قیمت 150 روپے تک پہنچ گئی تھی، گھی، چاول، دالیں اور تمام اشیائے خوردونوش کی قیمتیں مسلسل بڑھتی جا رہی تھیں ایسے میں میڈیا نے بھی اپنا کردار ادا کیا اور عوام کو بتایا کہ نواز شریف کے دور میں مہنگائی کہاں تھی اور اب عمران خان کے دور میں مہنگائی کی سطح کہاں تک پہنچ گئی ہے۔
عوام بھی پریشان حال کہ اب کریں تو کیا کریں؛ شہباز شریف، آصف علی زرداری، مولانا فضل الرحمن، امیر حیدر خان ہوتی اور باقی تمام سیاسی و مذہبی جماعتوں نے ملک میں جمہوریت کو بچانے اور عوام کو اس مہنگائی سے نجات دلانے کیلئے پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے نام سے اتحاد قائم کر لیا، وہ اتحاد اپریل میں کامیاب ہوا اور پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایک منتخب وزیر اعظم کو پارلیمان کے راستے گھر بھیجا گیا۔
یہ اقدام ہونا تھا کہ عوام نے سکھ کا سانس لیا اور انہیں یقین ہو گیا کہ اب مہنگائی سے نجات دلانے کیلئے ایک نجات دہندہ حکومت آ گئی ہے لیکن معاملہ بالکل ہی مختلف ہو گیا؛ پیٹرول جو اس سے قبل ڈیڑھ سو روپے پر انتہائی مہنگا لگتا تھا اچانک سے 240 روپے تک چلا گیا، ڈالر جو 180 پر مہنگائی کا موجب تھا پھر 238 پر بھی قابو میں نہیں آ رہا تھا، آٹا جو 70 روپے فی کلو کے قریب انتہائی مہنگا تھا وہ بڑھ کر 130 روپے سے بھی تجاوز کر گیا اور گھی، چاول اور دالوں کے نرخ بھی کچھ مختلف نہیں ہیں جس کے بعد عوام سر پکڑ کر بیٹھ گئے لیکن انہیں امید تھی کہ میڈیا ضرور اس حکومت کا احتساب کرے گی کہ کیوں موجودہ حکمرانوں کو گزشتہ حکومت مہنگائی لانے والی لگتی تھی اور خود کمی کا دعویٰ کر رہے تھے۔
لیکن معاملہ یہاں بھی مختلف ہو گیا؛ میڈیا میں ایک نئی اصطلاح متعارف کرا دی گئی۔۔ ”مشکل فیصلے!” یہ اصطلاح اس طرح سے پیش کی گئی کہ عوام کو ذہنی طور پر مہنگائی کیلئے تیار کیا جا سکے۔
مہنگائی مکاﺅ اور غربت مارچ والی سیاسی جماعتیں مہنگائی اور غربت مکانے نکلی تھیں یا غریب مکاﺅ ایجنڈا ان کی ترجیح تھا؟ ملک میں جاری اس وقت کی مہنگائی کی بڑھتی شرح پر جہاں ان تمام حکمران جماعتوں کو سانپ سونگھ گیا ہے وہیں یہ نوید بھی سنائی جا رہی ہے کہ یہ تو کچھ بھی نہیں ہے مزید مہنگائی کیلئے خود کو تیار کریں۔
گزشتہ دور میں بجلی کی قیمت تاجر کو اوسط 30 روپے میں پڑ رہی تھی اب اس کو 55 روپے تک بڑھا دیا گیا لیکن اس مہنگائی کو مشکل فیصلے کا نام دیا گیا اور 30 روپے ہونے پر ”مارچ کریں گے” کا نعرہ بلند کرنے والے 55 روپے ہونے پر صبر و استقامت کا مظاہرہ کرنے کی تلقین کرنے لگے۔
میڈیا بھی اپنی بغلیں جھانک رہا ہے کہ جس طرح ان سیاسی جماعتوں کے بیانیہ کو مکمل حمایت فراہم کی گئی اب تو معاملہ ہی الٹ ہو گیا ہے اور کوئی راستہ بھی نظر نہیں آ رہا۔ تجربہ کار سیاسی اور معاشی ٹیم جو ٹیلی وژن سکرین پر نظر آتی تھی اب دوربین میں بھی نظر نہیں آ رہی۔
بتایا گیا تھا کہ ڈار آئے گا تو ڈالر نیچے آئے گا، ڈار صاحب نے بھی ایسا ڈالر کیلئے منصوبہ بنایا کہ ملک میں نہ صرف اشیائے خوردونوش مہنگی ہونا شروع ہو گئی ہیں بلکہ ملک میں ادویات اور صنعتوں کیلئے خام مال کی درآمد پر بھی پابندی لگا کر نئے بحران کو جنم دینے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
اب تک حکومت کو آئے صرف 8 ماہ ہوئے ہیں؛ مفتاح اسماعیل اور اسحق ڈار ایک دوسرے پر بندوقیں تانے کھڑے ہیں، عوام حیران و پریشان ہیں کہ ایک ہی جماعت ایک ہی پالیسی اور ایک ہی لیڈر کے دو ماننے والے لڑ کیوں رہے ہیں؟ انہوں نے تو ہمیں عمران خان کی لائی ہوئی مہنگائی سے نجات دلانا تھی، ایسے میں میڈیا بھی نہ ادھر کا بن رہا اور نہ ادھر کا بس خاموشی سے تماشا دیکھ رہا ہے۔
مشکل فیصلے جتنے لینے تھے لے لئے اب اچھا وقت آ گیا ہے۔۔ یہ جملہ بھی پچھلے تین مہینوں سے میڈیا ہمیں سنا رہا ہے اور میڈیا خود بھی نہیں جانتا کہ اس جملے میں کتنی صداقت ہے لیکن روزی روٹی کا سوال ہے، ٹی وی پر کچھ تو دکھانا ہی ہے اور کچھ دکھانے سے مقصود اشرافیہ کا بیانیہ ہے، غریب جس حالت سے گزر رہا ہے اس کیلئے میڈیا کے پاس کوئی وقت نہیں ہے بس کبھی کبھار برکت کیلئے چند خبریں چلائی جاتی ہیں باقی تمام توجہ صرف اور صرف سیاسی صورتحال پر مرکوز ہے۔