"اس کے پیسے فاطمہ جناح سے لے لو”
عبدالمعید زبیر
کسی بھی قوم کی کردارسازی میں اس قوم کی مدبرانہ قیادت کا بڑا عمل دخل ہوتا ہے۔ وہ قیادت جو ایک مخصوص نظریے پر اس قوم کو متحد کرے۔ پھر اسی نظریے پر ان کی منزل کا تعین کرے۔ انہیں اس منزل کی اہمیت اور افادیت کے ساتھ ساتھ اس میں پیش آمدہ مسائل سے آگاہ کرے۔ پھر حصول مقصد کے لیے اس کٹھن راستے کو اپنے اتحاد سے عبور کرے۔ یہ بات واضح ہے کہ نظریہ کسی بھی منزل کی بنیاد اور اساس کی حیثیت رکھتا ہے جو ہماری کامیابی کے حصول کو یقینی بناتا ہے۔
ہندوستان کے مسلمانوں کو قائد اعظم محمد علی جناح کی صورت میں ایسی مخلص قیادت میسر آئی کہ پھر انہوں نے ایک نظریے پر ڈٹ کر اپنے مقصد کے حصول کے لیے تن من دھن کی قربانی سے بھی گریز نہیں کیا۔ انہوں نے مسلمانوں کو اس نظریے پر قائل کیا کہ ان کے لیے ایسا الگ وطن حاصل کرنا اب ناگزیر ہو چکا ہے جہاں وہ امن، سکون اور عزت کے ساتھ زندگی بسر کر سکیں؛ حصول علم، آزدی فکر، اور آزادی نقل و حرکت سے بہرور ہوں، وہ دنیا میں ایک خوددار اور آزاد قوم کی حیثیت سے پہچانے جائیں۔ ان کی اپنی ایک اسلامی ریاست ہو جہاں وہ اسلام کے زریں اصولوں پر کاربند ہوں، جہاں وہ اپنے آزادانہ فیصلے خود کر سکیں۔
ایسی شخصیت صدیوں بعد پیدا ہوتی ہے جن کی لگن، محنت اور کارناموں کو تاریخ میں سنہرے حروف سے لکھا جاتا ہے۔ قائد اعظم محمد علی جناح کو یہ مقام کوئی ایک دو دن کی محنت یا کسی کے سہارے چل کر نہیں ملا تھا بلکہ انہوں نے اس منصب کے لیے اپنی حیثیت کو منوایا تھا۔ ان کی عملی زندگی کا آغاز بیس سال کی عمر میں ہوا، جب ان کا نام بمبئی ہائیکورٹ میں ایک وکیل کی حیثیت سے درج کیا گیا۔ انہوں نے اپنے مطالعے اور فہم قانون کی بنیاد پر قانونی حلقوں کے ساتھ ساتھ سیاسی حلقوں میں بھی اپنی دھاک بٹھائی۔ عملی سیاست کا آغاز کانگریس سے کیا۔ اس وقت قائد اعظم ہندو مسلم اتحاد کے قائل تھے۔ وہ اپنے معتدلانہ اور مدبرانہ فیصلوں کی بنا پر مسلم حلقوں میں بھی مقبول تھے۔ انہوں نے معاہدہ لکھنو کے ذریعے ہندو مسلم کو قریب لانے کے لیے بھی کوششیں کیں۔ جب 1915 کا رولٹ ایکٹ منظور ہوا تو اسے شہری آزادی سے متصادم قرار دے کر احتجاجاً اسمبلی سے مستعفی ہو گئے اور اگلے ہی سال کانگریس کی غلط اور منافقانہ پالیسیوں کی وجہ سے اسے خیرباد کہہ کر مسلم لیگ میں شامل ہو گئے۔ پھر بقیہ زندگی انہی کی خدمت میں گزاری۔ پھر 1928 میں پیش کی جانے والی نہرو رپورٹ کی بھی بھر پور مخالفت کی اور اس کے مقابلے میں اپنے مشہور چودہ نکات پیش کیے۔ کچھ معاملات پر دل برداشتہ ہو کر خود کو سیاست سے الگ کر کے لندن میں سکونت اختیار کر لی۔ مگر مسلم لیگی راہنماؤں کے اصرار پر 1934 میں واپس آئے اور وہیں سے اپنی جدوجہد کا آغاز کیا، مسلم لیگ کو منظم کر کے مسلمانوں کو ایک نمائندہ پلیٹ فارم مہیا کیا۔ علامہ اقبال رحمہ اللہ بھی یہ کہنے پر مجبور ہوئے کہ "آج ہندوستان میں آپ ہی وہ واحد مسلمان ہیں جن کی ذات سے مسلم قوم اس طوفان بلا میں راہنمائی کی توقع رکھ سکتی ہے، جو شمال مغربی ہند بلکہ شاید پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لینے والا ہے۔ 1940 کی قرارداد علامہ اقبال کے اس طریق عمل کی واضح عکاسی کرتا ہے۔
علامہ شبیر احمد عثمانی رحمہ اللہ کے بقول "اورنگزیب کے بعد برصغیر کی سرزمین نے اتنا عظیم مسلمان حکمران پیدا نہیں کیا۔” بلاشبہ وہ ایمان دار اور نڈر لیڈر تھے جنہیں ڈرانا یا جھکانا بالکل ناممکن تھا۔ پھر ان کے راستے میں جو رکاوٹیں آئیں، وہ انہیں خاطر میں نہیں لائے۔ یہاں تک کہ جب وہ ٹی بی جیسے مہلک بیماری میں مبتلا ہوئے تو ڈاکٹرز نے انہیں تمام سرگرمیاں ختم کر کے آرام کرنے کا مشورہ دیا جس پر انہوں نے دوٹوک جواب دیا کہ "ڈاکٹر صاحب! مجھے یقین ہے کہ آپ اپنے مقدس پیشے کا خیال رکھتے ہوئے میری بیماری کے متعلق کسی کو کچھ نہیں بتائیں گے۔” تقسیم ہند کے بعد ماؤنٹ بیٹن نے یہ راز افشاں کیا کہ وہ اس بیماری میں مبتلا تھے۔ بلکہ یہ بھی لکھا کہ "اگر یہ معلوم ہو جاتا کہ جناح کی زندگی مختصر ہے، تو ہندوستان کی تاریخ کچھ اور ہوتی۔ یوں پاکستان ان کی زندگی میں کبھی نہ بن سکتا اور دوسرا جناح کوئی تھا نہیں جو یہ کام کر سکتا۔” گویا اللہ تعالیٰ کی رحمت سے جو ہمیں یہ ملک خدا داد حاصل ہوا، اس میں لیڈر سے لے کر عوام تک سبھی نے برابر کی قربانیاں دیں۔
بیماری کے باوجود ان کی دن رات کی محنت کی وجہ سے گرتی ہوئی صحت پر ان کی بہن فاطمہ جناح بڑی فکرمند رہتیں، انہیں آرام کا مشورہ دیتیں جس پر قائد اعظم کہتے کہ "کیا تم نے کبھی سنا ہے کہ کوئی جنرل چھٹی پر جائے اور اس کی فوج ملک کی بقا کی جنگ لڑی رہی ہو؟” اس حد تک انہوں نے اپنی جان کی پرواہ کیے بغیر اس ملک کے حصول کے لیے تگ و دو کی۔ اور یہ عظیم ملک ہمارے حوالے کیا۔
پاکستان بن جانے کے بعد سرکاری خزانے کے استعمال میں بہت محتاط رہتے تھے۔ سرکاری خزانے سے کابینہ میٹنگ میں کھانے پینے کی اشیاء فراہم کرنے سے منع کر دیا۔ ان کے لیے ڈیڑھ روپے کا موزا خریدا گیا تو منع فرمایا کہ کسی غریب ملک کے گورنر جنرل کو اتنی مہنگی چیزیں نہیں پہننی چاہئیں۔ سرکاری استعمال کے لیے فرنیچر منگوایا تو اس میں ایک کرسی فاطمہ جناح کی تھی۔ فوراً لسٹ سے وہ کرسی کاٹ دی اور کہا کہ "اس کے پیسے فاطمہ جناح سے لے لو۔” یہ ملک اسی اخلاص اور ایمانداری کا نتیجہ تھا۔
تحریک پاکستان کے دوران مسلمان دو حصوں میں تقسیم تھے۔ اگرچہ دونوں ہی نفاذ اسلام کی کوشش میں مصروف عمل تھے۔ مگر ان میں فرق یہ تھا کہ مسلم لیگ علیحدہ آزاد ریاست چاہتی تھی جبکہ مولانا ابوالکلام آزاد اور جمیعت علماء ہند پورا ہندوستان چاہتے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ ملک ہمارا ہے، ہم کئی صدیوں سے جہاں امن سے رہ رہے ہیں۔ ہم نے اس ملک سے انگریز کو بھگانا ہے نا کہ انگریز کی خاطر اس ملک کو دو ٹکڑے کرنا ہے۔ ان کا اندیشہ تھا کہ اگر ہم الگ ریاست حاصل بھی کر لیں تب بھی ہم اسلام کو نافذ نہیں کر سکتے بلکہ دونوں طرف مسلمان محکوم رہیں گے۔ لہذا علیحدہ وطن کی بجائے پورے ہندوستان کو انگریز سے حاصل کرو اسی لیے وہ ہندو اور سکھوں کے ساتھ مل کر آزادی کی جنگ لڑ رہے تھے مگر قائد اعظم کا موقف یہی تھا کہ یہ لوگ دھوکے باز ہیں۔ کبھی ہمارے ساتھ مخلص نہیں ہو سکتے۔
بہرحال پاکستان بن جانے کے بعد مولانا حسین احمد مدنی رحمہ اللہ نے فرمایا تھا کہ مسجد بننے میں تو اختلاف ہو سکتا ہے مگر بن جانے کے بعد اس کی حفاظت و انتظام ہر مسلمان پر فرض ہوتا ہے۔ اسی طرح مولانا ابوالکلام آزاد رحمہ اللہ نے فرمایا کہ "پاکستان الگ ملک بن چکا ہے، اب اس کی حفاظت مسلمانوں پر فرض ہے۔”
مگر آج اپنے ملک کے حالات کا بغور جائزہ لیا جائے تو کیا ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہم قائد اعظم کے وژن پر ہیں؟ کیا بیماری کا بہانہ بنا کر، اپنے مقدمات کا سامنا کرنے کی بجائے، کارکنوں کو پیچھے چھوڑ کر ملک سے بھاگنے والے اپنے آپ کو لیڈر کہلانے کے حق دار ہیں؟ کیا جس ملک کے پڑھے لکھے نوجوان بیس تیس ہزار کی نوکری کے لیے دھکے کھاتے نظر آئیں، بازار میں ریڑھیاں لگاتے نظر آئیں، اس ملک کے سربراہ کو یہ بات زیب دیتی کہ وہ کہے کہ ہم دو افراد کا مہینے میں دو لاکھ سے گزارا نہیں ہوتا؟ کیا ایسا شخص قیادت کا حق دار ہے، جو نہ ملک کے مسائل سمجھتا ہو نہ اسے خارجی مسائل پر دسترس ہو، نہ آزاد فیصلے کرنے کی ہمت رکھتا ہو نہ اس کے پاس ناکامی کے سوا دکھانے کو کوئی کارکردگی ہو؟ کیا ایسا شخص قیادت کا حق دار ہو سکتا ہے جو کئی عرصوں سے ایک صوبے پر مسلسل برسر اقتدار ہو، اس کی دولت تو دن بدن بڑھ رہی ہو مگر صوبے میں عوام کو اچھا ہسپتال، فوری طبی امداد میسر نہ ہوں، تعلیمی سہولیات اور ٹرانسپورٹ نہ ہونے کے برابر ہوں۔ زندگی کی بنیادی سہولیات کی بھیگ مانتے شہری پر کیسے اس طرح کے لوگ حکمران بن سکتے؟
یاد رکھیے! موجودہ حالات بہترین قیادت کے فقدان اور نااہل حکمرانوں کی وجہ سے ہیں۔ پاکستان کی ترقی اور بقا اسی میں مضمر ہے کہ قائد اعظم کے اصولوں کی پیروی کی جائے۔