سیلاب نے بتا دیا زمین زراعت کیلئے مناسب ہے یا رہائش کیلئے
طیب محمدزئی
اگرچہ پاکستان کی دھرتی قدرتی وساٸل سے مالا مال ہے لیکن سب سے زیادہ اہمیت اس کی زرخیز زمین اور آبی وسائل کو حاصل ہے، اسی بنیاد پر اسے زرعی ملک کہا جاتا ہے۔
ہمارے ملک کا زیادہ تر انحصار زراعت پر ہے۔ صنعت کو بھی بڑی اہمیت حاصل ہے لیکن اس کا دارومدار بھی زراعت پر ہی ہے۔ سرسبز و شاداب زمینیں، جنگلات، معدنیات سے بھرے پہاڑ اور دریا ایسے وسائل ہیں جن کے ہوتے ہوئے کسی بھی ملک کو ترقی یافتہ قوموں کی صف میں کھڑا ہونے سے کوٸی نہیں روک سکتا بشرطیکہ ان وسائل کا استعمال ایمانداری اور عقل و دانش سے کیا جائے۔
قسمت کی مگر ستم ظریفی یہ ہے کہ دیگر وسائل کی طرح زراعت کو بھی مختلف انداز اور زاویوں سے مسلسل نقصان پہنچایا جا رہا ہے جبکہ ارباب اختیار کی غیرسنجیدگی اور نامناسب پالیسیاں اس ظلم کو مزید تقویت دے رہی ہیں۔ زرعی زمینیں جہاں حکومت کے تعاون اور سرپرستی سے محرومی کے باعث خاطرخواہ ترقی حاصل نہیں کر سکیں وہاں رہائشی سکیموں نے بھی زراعت کی بربادی میں اہم کردار ادا کیا۔
زراعت اور زرعی زمینوں سے اس کھلواڑ کا خمیازہ عوام مہنگاٸی، فضائی آلودگی اور خوراک کی کمی کی صورت میں بھگت رہے ہیں جبکہ مستقبل میں ہمارے ملک کو خدانخواستہ قحط کا سامنا ہو سکتا ہے۔ عام عوام کو حال اور مستقبل کی مشکلات کا اندازہ ہے لیکن حکومتوں نے اس ضمن میں غیرسنجیدگی کا مظاہرہ کیا ہے، عوامی حلقوں اور خصوصاً زراعت کے شعبے سے وابستہ افراد نے بارہا ان ناانصافیوں کی نشاندہی بھی کی اور احتجاج بھی لیکن حکمرانوں کے کانوں پر جوں تک نہ رینگی۔
بھلا ہو ان انسان دوست سماجی کارکنان اور وکلا صاحبان کا جنہوں نے ان کی آواز ہاٸی کورٹ تک پہنچانے میں مدد کی۔ انہوں نے لینڈ مافیا اور زراعت کو نقصان پہنچانے والے افراد اور اداروں کے خلاف رٹ داٸر کی جس پر قانونی کارروائی کرتے ہوۓ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے زرعی زمینوں پر تعمیرات کو غیرقانونی قرار دے کر رہائشی سکیموں پر پابندی عائد کر دی۔ ہاٸی کورٹ کے احکامات پر عمل کرتے ہوئے نہ صرف ان کے خلاف ایف آٸی آر درج کی بلکہ رہائشی سکیمیں بھی سیل کر دیں۔
لیکن قسمت کی ستم ظریفی ملاحظہ کیجیے کہ کچھ ہی دنوں میں ہاٸی کورٹ کے احکامات ہوا میں اڑا دیئے گٸے اور رہائشی سکیمیں ملی بھگت سے بحال ہو گئیں۔ ہو سکتا ہے ان کی نظر میں حکومت کے احکامات کی کوٸی حیثیت نہ ہو مگر قدرت کی جانب سے زمینوں کی جو درجہ بندی ہوٸی ہے اس سے کیسے انکار کیا جا سکتا ہے۔
حالیہ سیلابوں نے جہاں بیشتر علاقوں کو نقصان سے دوچار کیا ہے وہاں لوگوں کو یہ بھی بتا دیا ہے کہ کون سی زمین رہائش کے لئے موزوں ہے اور کون سی زراعت کیلٸے مناسب ہے۔ کوٸی عقلمند ایسی جگہ رہائش کے لئے منتخب نہیں کرے گا جہاں سے سیلاب کا گزر ہوا ہو اور جو دریاؤں کے کنارے ہو کیونکہ سیلاب اپنے رستوں کا تعین کر چکا ہے۔
2010 کے سیلاب میں جو علاقے زیرآب آ گئے تھے اس بار بھی وہی علاقے متاثر ہوئے ہیں اور آئندہ بھی یہی صورتحال رہے گی۔ انتظامیہ کو اس ضمن میں ٹھوس اقدامات اٹھانے کی اشد ضرورت ہے تاکہ نہ زرعی زمین برباد ہو اور نہ مستقبل میں کسی کا گھر زیر آب آئے۔ عقل کا تقاضہ بھی یہی ہے کہ گھر ایسی زمین پر بنایا جائے جو متنازعہ نہ ہو اور جو آبی گزر گاہ کے قریب نہ ہو۔
عالمی سطح پر موسمیاتی تبدیلی کے سبب آئندہ سیلاب کی آمد کو کسی طور نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ اس کائنات کے وجود اور بقا میں ماحول اور اس کے تحفظ کی بڑی اہمیت ہے، اسی اہمیت کے پیش نظر قدرت نے ہمیں سرسبز و شاداب وادیاں، خوبصورت پہاڑ، گھنے جنگل، دلکش جھرنے، اُبلتے چشمے، بہتی ندیاں اور وسیع سمندر عطا کیا تاکہ ہم راحت و آرام کے ساتھ زندگی گذاریں۔ ان تمام نعمتوں کو قدرتی توازن کا سبب قرار دیا گیا لیکن ہم نے اپنی ایجادات اور ذاتی مفادات کی خاطر قدرتی ماحول کو بدلنا شروع کیا، درخت کاٹے گئے، پہاڑ توڑے گئے، دریاٶں کے کنارے تعمیرات کی گئیں اور غلاظت بھری نالیاں دریاؤں اور ندی کے پاک و صاف پانی میں گرائی گئیں۔ گاڑیوں اور کارخانوں نے دھوئیں کے غولے فضا میں اڑائے اور اس طرح دیکھتے دیکھتے سارا نقشہ بدلتا چلا گیا۔ اس تبدیلی سے فضائی آلودگی پیدا ہوئی اور قدرت کا بخشا ہوا پاکیزہ ماحول اور توازن ختم ہو کر رہ گیا جس کی وجہ سے آج دنیا پریشان ہے۔
ماحولیاتی آلودگی کی وجہ سے اوزون گیس کی تہ میں شگاف پڑ گیا ہے اور سورج کی مضر شعاعیں بلاواسطہ ہم تک پہنچ کر مختلف امراض کا سبب بن رہی ہیں۔
وہ پانی جس سے تمام چیزوں کو اللہ نے زندگی بخشی ہم نے اس کی ناقدری کی، وہ زرخیز زمین جس سے اناج حاصل کیا جاتا تھا وہ کسی اور مقصد کیلئے استعمال ہونے لگی۔
یہ سارا فساد اور بگاڑ ہم نے اپنے ہاتھوں پیدا کیا ہے اور جیسا کہ قدرت کا اصول ہمیشہ سے مکافات عمل کا رہا ہے اسی طرح ہم نے اپنی دھرتی اور اپنی فضاؤں کے ساتھ جو ناانصافی کی ہے اسی کا خمیازہ ہمیں بھگتنا پڑ رہا ہے۔