”گاؤں میں ایسی چیز جو کبھی شہر میں بھی نہیں دیکھی تھی”
حمیرا علیم
کسی زمانے میں گاؤں کی زندگی اور شہر کی زندگی میں فرق ہوتا ہو گا جب گاؤں میں بجلی، گیس، سڑکیں، نلکے، ہاسپٹلز وغیرہ نہیں ہوتے تھے اور یہ تمام سہولیات صرف شہروں تک محدود تھیں۔
لیکن آج کے گاؤں اور شہروں میں انیس بیس کا ہی فرق ہے۔ زیادہ دیہاتوں میں جانے کا تو اتفاق نہیں ہوا اس لئے سب کے بارے میں تو نہیں کہہ سکتی لیکن اپنے ننھیالی گاؤں کا ذکر کروں تو اس پر کسی چھوٹے سے شہر ہی کا گمان ہوتا ہے۔ پرائیویٹ اسکولز، کوچنگ اکیڈمیز، بینکس، کلینکس، سرکاری سکول، ہاسپٹل، مارکیٹس اور ہر وہ سہولت جو کسی شہر میں موجود ہے وہاں بھی ہے۔ گیس ابھی نہیں پہنچی لیکن لوگ گیس سلنڈرز اور لکڑی والے یا الیکٹرک گیزر استعمال کرتے ہیں۔
کنواں تو موجود ہے مگر ماضی کی طرح پورا گاؤں اس ایک کنویں سے پانی بھرنے کی بجائے اپنے اپنے گھر میں کنواں کھدوا کر یا بورنگ کروا کر پانی کی موٹریں استعمال کرتا ہے۔ ہر گھر میں جنریٹر ہے یا یو پی ایس موجود ہے۔ اور چھوڑئیے ایک ایسی چیز بھی دیکھنے کو ملی جو کبھی شہر میں نہیں دیکھی تھی۔
ہوا یوں کہ ہم سب اپنی سب سے بڑی خالہ زاد کزن کے گھر گاؤں گئے ہوئے تھے جو ہماری والدہ سے چند سال ہی چھوٹی تھیں کہ اچانک ان کی طبیعت بگڑ گئی۔ گاڑی میں ڈال کر ہاسپٹل لے گئے۔ ڈاکٹر نے سی ایم ایچ لے جانے کا کہا۔شاید اسے اندازہ ہو گیا تھا کہ وہ جان کنی کے عالم میں تھیں۔ انہیں ایمبولینس میں ڈال کر روانہ ہوئے مگر کچھ لمحوں بعد ان کا انتقال ہو گیا تو واپس گاؤں لے گئے۔ چونکہ ان کے بیٹے بیٹیاں انگلینڈ میں مقیم ہیں اور ان کا کہنا تھا کہ والدہ کی تدفین ان کے آنے تک موخر کی جائے لہذا ایک قد آدم سائز کا فریزر منگوایا گیا جس میں ان کی ڈیڈ باڈی کو دوسرے دن شام تک رکھا گیا۔ اور ان کے بچوں کی آمد پہ ان کی تدفین کی گئی۔
تدفین کے بعد میں نے باجی کی بیٹی سے پوچھا کہ "یہ فریزر کہاں سے ارینج کیا گیا تھا؟” تو اس کے جواب نے مجھے حیران کر دیا اس نے بتایا: "چونکہ گاؤں میں تقریباً ہر گھر میں کوئی نہ کوئی فرد انگلینڈ میں رہتا ہے لہذا یہ فریزر بنوا کر مسجد میں بالکل ویسے ہی رکھوایا گیا ہے جیسے میت والی چارپائی، اور جب تک لواحقین انگلینڈ سے پہنچ نہیں جاتے ڈیڈ باڈی اس میں محفوظ رکھی جاتی ہے۔”
اب شہر کے لوگ کہاں اتنے عقلمند کہ اتنی دور کا سوچیں۔
اور چھوڑئیے ماضی میں گاؤں کے کچے گھروں میں اکا دکا پکے گھر پائے جاتے تھے جو امراء کے ہوتے تھے۔ مجھے یاد ہے نانا کے ایسے گھر کو حویلی بولا جاتا تھا۔ لیکن اب تو گاؤں میں ایسی ایسی حویلیاں ہیں کہ اسپینش ولا کو بھی شرماتی ہیں۔ انگلینڈ سے نقشے بنوا کر لائے جاتے ہیں۔ پھر گاؤں میں موجود ان زمینوں پر جہاں کبھی فصلیں لہلہاتی تھیں، کم از کم چار کنال اور زیادہ سے زیادہ کی کوئی حد نہیں، ایسی ایسی کوٹھیاں اور بنگلے موجود ہیں کہ اندر جا کر آنکھیں کھلی کی کھلی رہ جاتیں ہیں۔ نہ صرف ایکسٹیرئیر بلکہ انٹیرئیر بھی بے حد شاندار ہے۔ انگلینڈ سے مشینری، کراکری، فانوس اور سامان آرائش لایا جاتا ہے۔ بہترین برانڈڈ فرنیچر، پردے، سینٹری فٹنگز استعمال کی جاتی ہیں۔ باتھ رومز بھی کسی بیڈ روم کے سائز کے رکھے جاتے ہیں جن میں جہازی سائز باتھ ٹبز کے علاوہ اتنی گنجائش رکھی جاتی ہے کہ فوتگی پہ میت کے غسل کا فریضہ بھی انہی میں سرانجام دے لیا جاتا ہے۔ کچن میں دنیا جہان کے گیجٹس اور مشینری نظر آتی ہے جن کا استعمال بھی شاید زندگی بھر نہ ہوتا ہو۔ شاید دوسروں سے مقابلے کی دوڑ میں بڑھ چڑھ کر پیسہ خرچ کیا جاتا ہے کہ فلاں رشتے دار کی کوٹھی ایسی ہے تو ہماری اس سے بہتر ہونی چاہیے۔
مگر افسوس کہ ان بنگلوز اور ولاز کے نصیب میں بسنا صرف اس مختصر مدت کیلئے ہے جب ان کے مالکان انگلینڈ سے اپنے کسی بچے کی شادی کیلئے پاکستان آتے ہیں یا کسی کی ڈیڈ باڈی لے کر۔ تین ہفتے بعد ان میں الو بولتا ہے اور ان کے کوئی پاکستانی رشتے دار یا دیکھ بھال کیلئے ہائر کئے ہوئے ملازم کبھی کبھار ان کی صفائی کروا دیتے ہیں۔
سچ پوچھیں تو مجھے تو یہ پیسے کا زیاں اور فضول خرچی لگتی ہے۔ یہی پیسہ وہ انگلینڈ میں خرچ کر کے بڑا گھر خرید سکتے ہیں یا پھر کسی چیرٹی کے کام میں لگا سکتے ہیں۔
یا اگر گھر بنانا ہی ہے تو شہر میں کسی پوش ایریا میں ڈبل اسٹوری بنا کر ایک پورشن کرائے پہ چڑھا کر دوسرا اپنے تصرف میں رکھا جا سکتا ہے۔ مگر ان لوگوں کی اپنی منطق ہو گی شاید زمین سے پیار، پرکھوں کے مقام پر اپنا ٹھکانہ، یا رشتے داروں سے مقابلہ۔ بہرحال ان کا پیسہ ان کی زمین ان کے گھر وہ جانیں ہمیں کیا۔
اب آ جائیے مکینوں کی حالت پر تو یقین مانیے ہمیں شہر میں رہتے ہوئے اس ٹرینڈ یا فیشن کی خبر بھی نہیں ہوتی جو اس وقت اِن ہوتا ہے مگر گاؤں کے مرد و زن کے کپڑے جوتے، بیگز، جیکٹس، جیولری ہر چیز لیٹسٹ فیشن کے مطابق ہوتی ہے اور کیوں نہ ہو کہ انگلینڈ سے امپورٹ کی جاتی ہے۔ موبائلز میں بھی آئی فون اور سام سنگ کے مہنگے فونز کے علاوہ کوئی دوسرا ماڈل دکھائی نہیں دیتا۔
پہلے جو لوگ گھر میں مرغیاں، بکریاں، گائے بھینسیں پالتے تھے، سبزیاں لگاتے تھے کہ خالص خوراک ملے اب اول تو ایسا کچھ کرتے نہیں اور اگر کوئی شوقیہ کر ہی رہا ہو تو دو دو نوکر رکھے جاتے ہیں جو ان کی دیکھ بھال کریں۔
مارکیٹس اور سٹورز پر رائبینا سے لے کر امپورٹڈ مایونیز کیچپ تک دستیاب ہوتی ہے مگر گروسری کیلئے وہ لوگ اسلام آباد آتے ہیں۔ پہلے جو بچے بیری کے درخت پہ رسی کا جھولا ڈال کر جھولتے تھے اب پورے پارکس کے سوئنگز گھروں میں لگائے پارکس بنائے بیٹھے ہیں مگر انہیں اپنی ٹیبلٹ اور لیپ ٹاپ پہ ٹک ٹاک دیکھنے اور کارٹونز دیکھنے سے ہی فرصت نہیں کہ ان کے مزے لے سکیں۔ تو جناب ہمارا تو خیال ہے کہ ایسے گاؤں کو گاؤں کہنا زیادتی ہے۔